“آج کل تمام وہ صحافی، سینئر ہیں جن کی عملی عمر پانچ سال سے زیادہ ہے”۔ یہ میرا تین سال پہلے کیا گیا ایک ٹویٹ ہے۔
ویسے تو پانچ سال بھی زیادہ ہیں۔ بعض اوقات تو دو تین برس عمر والے بھی سینئر صحافی بن بیٹھتے ہیں۔ صحافت ہمیشہ سے اہم شعبہ رہا ہے لیکن نجی میڈیا چینلز آنے کے بعد صحافی نما ایک نئے طبقے “اینکرز” کا ظہور ہوا۔ پھر اینکرز ہی بزعم خود صحافی تھے باقی تو سب “چھان بورا “تھا۔ اس بات سے کسی کی تضحیک مقصود نہیں محض تصویر کا ایک رُخ دکھانا مقصد تھا۔
ہمارے ایک دوست وقار مصطفےٰ 1989 میں لاہور کے ایک امریکن سکول میں انگریزی پڑھاتے تھے۔ 15 ہزار تنخواہ تھی۔ جو اس زمانے میں معقول رقم تھی۔ مگر انھیں صحافت کا شوق تھا۔ 15 ہزار کی نوکری چھوڑ کر 15 سو روپے ماہانہ پر “دی نیشن لاہور” کے ساتھ جُڑ گئے۔
ترقی کرتے کرتے وہ دی نیوز لاہور کے نیوز ایڈیٹر بن گئے۔ بعد ازاں ایک انگریزی ہفت روزہ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ سیفما کے سال نامے اور انسانی حقوق کمیشن پاکستان میں بھی ایڈیٹر کے فرائض انجام دئیے۔ آج کل روزنامہ جنگ اور دی نیوز کے اسائنمنٹ ایڈیٹر ہیں۔ ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک طویل عرصہ بطور سینئر نمائندے کے طور پر کام کیا۔ جرمنی جا کر بھی اس بڑے نشریاتی ادارے کے ساتھ کام کرتے رہے۔ پچھلے کئی برسوں سے بی بی سی کے لئے باقاعدہ لکھ رہے ہیں۔ اعلیٰ درجے کے براڈ کاسٹر بھی ہیں۔ ایک زمانے میں ریڈیو لاہور نے آر ٹسٹوں کے ری آڈیشن کئے۔ جب نتیجہ آیا تو معروف فن کار اور صاحب طرز براڈ کاسٹر شجاعت ہاشمی صاحب اور وقارمصطفےٰ کے نمبر برابر تھے۔ صحافت کے استاد اور دانش ور ‘وارث میر’ کے کالموں اور مضامین کا مجموعہ”وارث میر کا فکری اثاثہ “تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ وہ اردو، انگریزی اور پنجابی، تینوں زبانوں
میں یکساں مہارت کے حامل میں۔ جو لوگ انھیں نہیں جانتے وہ انھیں بولتے ہوئےسنیں گے تو سمجھیں گے کہ شاید وہ اہلِ زبان ہیں۔ حالاں کہ وہ باجوہ جٹ ہیں۔ مگر انتہائی کم گو، کم آمیز اور سنجیدہ مزاج کے حامل ۔ اگر سو بندے کی قطار ہوگی تو وہ قطار میں ہی کھڑے ہوں گے یہ نہیں بتائیں گے کہ وہ صحافی ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ پر کہ اب ان سے کوئی کیا سینئر ہوگا۔
صحافت کی دنیا میں کچھ ایسی شخصیات ہیں جن کے نام کے ساتھ سینئر جچتا بھی ہے، جیسے حسین نقی صاحب ہیں۔ آئی اے رحمان، حمید اختر، ضیا الدین ، مسعود اشعر، عباس اطہراور اس پائے کے دوسرے کئی جید صحافی رہے ہیں۔ اس کے بعد نذیر ناجی، سرفراز سید، ہارون الرشید، رفیق ڈوگر، مجیب الر حمٰن شامی، اسلم ملک جیسے بے شمار صحافی ہیں جن کو کبھی یہ ضرورت ہی نہیں پڑی کہ وہ سینئر جونئیر کے چکر میں پڑیں۔
جب کسی نوآموز صحافی کو رعب سے متاثر کرنے کی شعوری یا لاشعوری کوشش کرتے دیکھتا ہوں تو بے ساختہ مسکرانے پر مجبور ہو جاتا ہوں۔ یہ سال 1995 کا سال تھا جب میری ایم اے کی کلاسیں ختم ہو گئیں۔ ان دنو ں محترمہ بے نظیر بھٹو کی وفاق میں حکومت تھی۔ اس زمانے میں آئی جے آئی، پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ کی حکومتوں کی اُتھل پُتھل جاری تھی۔ مشکل سے ہی کسی کو کوئی نوکری میرٹ پر ملی ہوگی۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایک پلیس میٹ بیورو کے نام سے ادارہ بنایا تھا۔ جس میں آپ اپنی تعلیمی قابلیت کے اعتبار سے اپلائی کر دیتے تھے اور آپ کی تعلیمی استعداد کے مطابق کئی محکموں کے کال لیٹر آجاتے تھے۔ میں نے بھی سماجی دباؤ کے تحت اپلائی کر رکھا تھا۔ ورنہ میں تو نوکری کرنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتا تھا۔ ہا ں وقتی پڑاؤ کے لئے شاید کہیں رک بھی جاتا۔
ان دنوں میرے مرحوم ماموں شفیق جرمنی میں ہوتے تھے۔ وہاں ان کے ایک دوست کے توسط سے میں ایمن آباد کے انکل اختر گھمن سے ملا تو ان کے ساتھ اسلام آباد آکر خلیل احمد چوہدری صاحب سے ملا جو اُس وقت سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کے سٹاف افسر تھے۔ چند برس قبل وہ بطور جوائنٹ سیکرٹری کے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ انھوں نے رب کی مخلوق کے لئے بہت آسانیاں پیدا کیں رب ان کے لئے آسانیاں فرمائے۔
خلیل صاحب سےظاہر ہے اس لیے ملا تھا کہ وہ سرکاری نوکری حاصل کرنے میں کوئی مدد کریں۔ ان کا گھر میلوڈی مارکیٹ او ر پولی کلینک کے درمیان ارجنٹینا پارک کے سامنے تھا۔ وہ اپنے گھر لے کر آئے۔ اتنے پیار، خلوص اور محبت سےپیش آئے کہ ان کا برتاؤ دل پر نقش ہو گیا۔ انھوں نے اپنے گھر کے در وازے اس وقت میرے لئے کھول دیے جب میرا اسلام آباد میں نہ کوئی جاننے والا تھا اور نہ کوئی عزیز رشتے دار۔
میں واپس اپنے گاؤں گیا تو جا کر انھیں خط لکھا جس کا لُبِ لباب یہ تھا کہ”دنیا کے کام تو ہوتے رہتے ہیں لیکن انسان کا رویہ اور اخلاق ہمیشہ کے لئے اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے، جیسا کہ آپ نے بنا لیا”۔
بھائی جان! خلیل چوہدری نے وہ خط اپنے گھر اور دفتر میں پڑھوایا، اور آئندہ میرے آنے سے پہلے وہ یہ فیصلہ کر چکے تھے مجھے اخبار میں کام کرنا چاہیے۔ اکتوبر 1995 میں جب اسلام آباد آیا تو وہ مجھے آڈٹ بیورو سرکولیشن کے ڈائریکٹر فضل احمد مغل کے پاس لے گئے۔ انھیں کہا کہ اکمل میرا چھوٹا بھائی ہے اسے
اخبا ر میں کام کروانا ہے۔ مغل صاحب نے مجھے روزنامہ پاکستان کے مالک اور ایڈیٹر اکبر علی بھٹی کے پاس میلوڈی مارکیٹ میں ان کے دفتر بھیجا، مگر ادھر بات نہیں بنی۔ اگلے دن ستارہ مارکیٹ میں روزنامہ خبریں کے دفتر خوشنود علی خان کے پاس بھیجوایا۔
فیاض ولانہ ان دنوں خبریں اسلام آباد کے چیف رپورٹر تھے۔ انھوں نے مجھے ڈان کا بزنس والا صفحہ دیا جس پر سٹیٹ بنک کی سالانہ رپورٹ چھپی ہوئی تھی۔ کہنے لگے اس رپورٹ کی ایک صفحے کی اردو میں خبر بنائیں۔ میں نے کہا کہ کامرس کے حوالے سے میں کچھ نہیں جانتا، ولانہ صاحب نے کہا اگر یہاں کام کرنا ہے تو خبر بنانی ہوگی۔
بار بار میرا دل چاہے کہ اُٹھ کر چلا جاؤں۔ پھر سوچا اکمل شہزاد اس کو امتحان سمجھ اور کر گزر، لہذا میں کر گزرا۔
ولانہ صاحب انگریزی اخبار اور میری بنائی ہوئی خبر خوشنود علی خان کے دفتر میں لےگئے۔ تھوڑی دیر بعد واپس آئے تو کہنے لگے، پندرہ سو تنخواہ ہوگی۔ آپ کب سے آسکتے ہیں؟۔ میں نےکہا جی کہ بستر تو لے آؤں۔ بستر لے آیا تو کراچی کمپنی کے ایک فلیٹ میں انکل اختر کے دوست منیر وڑائچ کا بن بلائے مہمان بن بیٹھا۔
17 اکتوبر کو روزنامہ خبریں، اسلام آباد بطور سٹاف رپورٹر میں نے جوائن کر لیا۔ اس زمانے میں مشتاق منہاس، عرفان ڈار مرحوم، حامد حبیب، عامر الیاس رانا، عزیز ملک، عارف رانا، ناصر راجہ، صدیق ساجد، نیّر راوت، حامد حبیب سٹاف رپورٹر ہو ا کرتے تھے۔
پہلے دن ہی دیکھا کہ شام ڈھلتے ہی سارے رپورٹر اپنی اپنی خبریں فائل کر رہے ہیں۔ خبر بناتے کسی کی چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے ۔ فون بجتے ہیں توہر کوئی چاہتا کہ کوئی دوسرا ہی فون اُ ٹھا لے۔ مجھے چیف رپورٹر فیاض ولانہ صاحب نے مسلسل بجنے والے فون کی طرف اشارہ کیا کہ اسے اُٹھاؤ۔ فون اُٹھایا تو دوسری طرف ایک مترنم آواز تھی کہ انٹر میڈیٹ کا نتیجہ کب آر ہا ہے۔ جواب دیا، پتا نہیں۔ پھر کہا گیا، آپ اخبار والے ہیں آپ کو بھی پتا نہیں۔ جواب دیا کہ جی میں نے آج ہی جائن کیا ہے۔ مترنم آواز نے کہا مبارک ہو۔ جواب دیا خیر مبارک۔ اس وقت مجھے بات بڑھانی کہاں آتی تھی سو نہیں بڑھ سکی۔ البتہ، اس کے بعد میرا دھیان خصوصی طور پر دل دل ہی ٹیلی فون کی گھنٹی کی طرف رہتا، کئی بار فون اُٹھایا بھی مگر روز تو قسمت کی دیوی مہربان نہیں ہوتی۔
ہم جونیئر کے جونیئر ہی رہے ایک دنیا ہم سے سینئر ہو گئی۔