بلوچستان کے ضلع چمن میں پاک افغان بارڈر (باب دوستی) کے قریب بین الاقوامی شاہراہ پر گزشتہ 4 روز سے جاری احتجاج رنگ لے آیا ہے اور مسائل کے حل کے لیے پاک افغان حکام کے درمیان باضابطہ مشاورت کی گئی ہے۔
’احتجاجی دھرنا دینے والوں کا موقف ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں آنے جانے کے لیے ویزا اور پاسپورٹ لازمی قرار دینے کا فیصلہ درست نہیں، اس دھرنے کی حمایت سرحدی تجارت سے وابستہ چھوٹے تاجروں اور مزدوروں کی جانب سے بھی کی جا رہی ہے‘۔
پاکستان بارڈر مینجمنٹ حکام اور طالبان حکومت کے بارڈر آفیشلز کے درمیان ایک فلیگ شپ میٹنگ کا انعقاد کیا گیا جس میں بارڈر مینجمنٹ کے معاملات زیر غور آئے۔
اس میٹنگ میں پاکستان کی جانب سے نمائندگی ڈپٹی کمشنر چمن راجہ اطہر عباس نے کی جبکہ ایف سی اسکاؤٹ کمانڈر چمن عمر جبار بھی موجود تھے۔
فلیگ شپ میٹنگ میں غیر قانونی افغان مہاجرین کے انخلا کے حوالے سے سہولیات کی فراہمی، بارڈر پر آمدورفت اور مریضوں کو درپیش مشکلات پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔
نگراں صوبائی وزیر اطلاعات بلوچستان جان اچکزئی کے مطابق ون ڈاکیومنٹ رجیم اور لوکل کمیونیٹیز کو درپیش مسائل کے موثر حل کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان اچھے ماحول میں مشاورت کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔
ڈپٹی کمشنر چمن نے لوکل کمیونیٹیز کو درپیش مسائل کے موثر حل کے لیے اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
واضح رہے کہ پاک افغان شاہراہ پر چمن کے مقام پر آل پارٹیز لغڑی اتحاد اور دیگر سماجی تنظیموں کی جانب سے گزشتہ 4 روز سے احتجاجی دھرنا جاری ہے جس میں شہریوں سمیت مختلف سیاسی، قبائلی اور سماجی تنظیموں کے نمائندے شریک ہیں۔
شرکا کا موقف ہے کہ چمن بارڈر پر کسی صورت پاسپورٹ سسٹم رائج کرنا منظور نہیں کیا جائے گا۔