پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ میں جنگی جرائم کے لیے اسرائیل کا احتساب کرے۔ امریکا میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور تنبیہ کی کہ اس جنگ کے باعث وسیع اور خطرناک تصادم کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔ پاکستانی سفیر نے کہا کہ غیر ملکی قبضے کے خلاف مزاحمت کو بین الاقوامی قوانین کے تحت دہشت گردی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے منیر اکرم نے اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر سلامتی کونسل کی اعلٰی سطحی بحث کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی کا محاصرہ کیا اور 7 اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیلی قبضے میں رہنے والے فلسطینیوں کی بگڑتی ہوئی حالت کے بدلے میں کیے گئے اچانک حملے کے بعد فضائی حملے شروع کر دیے۔ جس کے نتیجے میں اسرائیلی حملوں میں اب تک کم از کم 5,791 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) پر منگل کے روز اسرائیل کے غزہ فضائی حملوں کو روکنے میں ناکامی پر تنقید کرتے ہوئے اپنے رکن ممالک سے کہا کہ وہ شہریوں اور رہائشی محلوں کو نشانہ بنا کر علاقے میں “جنگی جرائم” کے ارتکاب کے تمام ذمہ داروں کو پکڑیں۔
The link of Ambassador Munir Akram's statement during the High-Level Debate of the UN Security Council on the situation in the Middle East including the Palestinian question (October 24, 2023)https://t.co/NPJOrdIcqo
— Permanent Mission of Pakistan to the UN (@PakistanUN_NY) October 25, 2023
مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے منیر اکرم نے تنازع کو کم کرنے کے لیے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ شہریوں، شہری اشیاء اور انفراسٹرکچر پر اسرائیلی حملے، پانی، ایندھن اور خوراک کی ناکہ بندی اور مقبوضہ علاقے سے لوگوں کی جبری منتقلی بین الاقوامی انسانی قوانین کی صریح خلاف ورزی اور جنگی جرائم کے مترادف ہے۔ یو این ایس سی ان ظالمانہ جرائم کے ذمہ داروں کا احتساب کرے۔
مزید پڑھیں
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کرتا ہے۔ غزہ میں اسرائیلی مہم کا تسلسل مزید بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتوں کا باعث بنے گا جو ایک وسیع اور زیادہ خطرناک تنازعہ کو جنم دے سکتا ہے۔
محمد اکرم نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یو این ایس سی نے تنازعہ کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی، جو لوگ اس کے جاری رہنے کا سبب بن رہے تھے ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے فلسطینی مزاحمت کو دہشت گردی قرار دینے والوں پر بھی تنقید کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل اور متاثرہ فلسطینیوں کے درمیان غلط مساوات پیدا کرنے کی کوئی بھی کوشش قانونی، اخلاقی اور سیاسی طور پر ناقابل برداشت ہے۔ پاکستان دہشت گردی کی تمام شکلوں کی مذمت کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت، خود ارادیت اور قومی آزادی کے لیے غیر ملکی قبضے میں رہنے والے لوگوں کی جدوجہد جائز ہے اور اسے دہشت گردی سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔ اور اس جدوجہد کو دباناغیر قانونی عمل ہے۔
محمد اکرم نے کہا کہ استعماری طاقتوں نے ہمیشہ اپنی حکمرانی کے خلاف مزاحمت کو دہشت گردی سے تعبیر کیا ہے، لیکن انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ایک ریاست جو زبردستی کسی غیر ملکی سرزمین پر قبضہ کر رہی ہے وہ اس اصول کو ان لوگوں کے خلاف استعمال نہیں کر سکتی جن کی سرزمین پر وہ قبضہ کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی قبضے کو برقرار رکھنے سے ارض مقدس میں امن قائم نہیں ہو گا۔ بین الاقوامی طور پر متفقہ 2 ریاستی حل سے ہی پائیدار امن قائم ہو گا۔