ایک حالیہ انٹرویو میں صدر پاکستان عارف علوی نے الیکشن کے سوال پر جواب دیا کہ انہیں یقین نہیں کہ الیکشن جنوری میں ہوں گے۔ ان کے اس بیان سے ایسی تمام افواہوں اور خدشات کو تقویت ملی کہ ملک میں عام انتخابات جلد ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ مختلف جماعتیں بھی الیکشن کمیشن کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں کہ ادارے کی طرف سے الیکشن کی تاریخ دینے کے بجائے محض یہ اعلان کردیا گیا کہ الیکشن جنوری کے آخری ہفتے میں ہوں گے۔ یہ خدشات پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اسمبلیاں تحلیل ہونے سے قبل بھی ملک میں سیاسی بحث کا موضوع رہے ہیں۔ عمران خان بھی بار بار کہتے رہے کہ انہیں لگ رہا ہے کہ انتخابات اکتوبر میں بھی نہیں ہوں گے۔ ان کا خدشہ درست ثابت ہوا، اکتوبر ختم ہونے کو ہے اور انتخابات کا کوئی نام نشان نہیں۔
چند روز قبل ایک انٹرویو میں نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے بھی اشارہ دیا کہ بہت سے ایسے ملک ہیں جو جمہوریت کے بغیر چل رہے ہیں مگر ان ملکوں نے اپنی معیشت مضبوط کرلی ہے۔ ان کا بھی شاید مطلب تھا کہ الیکشن کے بجائے معیشت زیادہ ضروری ہے۔
نواز شریف اپنی خود ساختہ جلاوطنی ترک کرکے پاکستان پہنچے تو مینار پاکستان گراؤنڈ میں ایک بڑے مجمع سے خطاب میں بھی انہوں نے الیکشن جلد کرانے پر کوئی زور نہیں ڈالا۔ اس سے قبل جب ان سے سوال کیا گیا کہ ان کے خیال میں الیکشن کب ہونے چاہئیں تو ان کا جواب تھا یہ الیکشن کمیشن کا کام ہے کہ وہ انتخابات کی تاریخ دے اور جو تاریخ دی جائے گی ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ ان کی اس بات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فوری الیکشن کے حق میں نہیں۔
تحریک انصاف کے بعد اب پاکستان پیپلز پارٹی بھی الیکشن جلد کرانے پر زور ڈال رہی ہے۔ پی پی پی رہنماؤں نے جہاں نواز شریف کو دیے گئے سرکاری پروٹوکول پر نگراں حکومت اور اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا وہیں انہوں نے نواز شریف کو اپنی تقریر میں الیکشن کا ذکر نہ کرنے پر بھی آڑے ہاتھوں لیا، بعض نے تو کہا عمران خان کے بعد اب ایک اور لاڈلے کو اقتدار پر بٹھایا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں
ادھر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی نگراں حکومت پر سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 1990ء اور 2002ء کے عام انتخابات بھی نگراں حکومتوں کے بغیر ہوئے۔ صاف اور شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کو کرانا ہیں تو نگراں حکومت کیوں بنائی جاتی ہے؟ الیکشن کمیشن کا پھر کیا کام ہے؟
الیکشن میں تاخیر کا آغاز تو 2 صوبائی اسمبلیاں توڑنے کے بعد ہی ہو چکا تھا مگر قومی اسمبلی، سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کے بعد سب سے پہلے متحدہ قومی موومنٹ نے مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نئی حلقہ بندیوں اور مردم شماری کے بغیر وہ انتخابات کو قبول نہیں کریں گے، جس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی ان کی تائید کردی اور یوں انتخابات التوا کا شکار ہوگئے۔
حال ہی میں مولانا فضل الرحمان نے دگرگوں معاشی صورتحال اور مغربی سرحدوں پر دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے سبب الیکشن مزید ملتوی کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ انہیں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ عوام کی ذہن سازی کی جائے کہ ٹیکنوکریٹ نگراں حکومت آ چکی ہے اور وہ فوج کے ساتھ مل کر معیشت کو درست سمت میں ڈالنے کے لیے اہم کردار ادا کرری ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان دہشت گردی کی زد میں ہیں جہاں الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں رہا۔
مولانا فضل الرحمان نے سابق وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کرکے انہیں یہ پیغام دیا ہے کہ اس سیٹ اپ کو مزید کام کرنے دیا جائے اور جب معیشت کچھ سنبھل جائے اور دہشت گردی پر قابو پا لیا جائے تو پھر الیکشن کرانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نواز تو پہلے ہی چاہتی ہے کہ الیکشن تب ہوں جب انہیں لیول پلیئنگ فیلڈ مل جائے، یعنی عمران خان جیل میں رہیں، تحریک انصاف کے دیگر رہنما یا تو پارٹی چھوڑ کر استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہوں یا انہیں الیکشن لڑنے میں سخت دشواریوں کا سامنا رہے۔
پی ڈی ایم حکومت میں سخت معاشی فیصلے کرنے اور عمران خان کو اقتدار سے ہٹائے جانے اور ان کی دھواں دار مہم کے بعد ان کی تیزی سے بڑھتی مقبولیت نے مسلم لیگ نواز کو ایک عیجب خوف میں مبتلا کررکھا ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر فوری الیکشن ہوئے تو اپنے سیاسی قلعہ پنجاب میں انہیں کوئی بڑا دھچکا لگ سکتا ہے لہٰذا الیکشن میں جتنا زیادہ التوا ہوسکتا ہے کیا جائے تا کہ اس دوران وہ عوامی رائے اپنے حق میں کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ نواز شریف کی واپسی بھی اسی منصوبے کا حصہ ہے۔
ہار جیت کی فکر کیے بغیر اور ذاتی مقاصد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک کی جمہوری قوتوں اور سیاسی جماعتوں کو فوری الیکشن کی طرف جانا چاہئے تاکہ وہ عوام میں امید کی روشنی پیدا کرسکیں۔عوام کا سیاستدانوں پر اعتماد تیزی سے ختم ہو رہا ہے اور موجودہ صورتحال انہیں مزید بدظن کرنے اہم کردار ادا کررہی ہے۔
پاکستان کا المیہ رہا ہے کہ ہر دور میں مقتدر حلقوں کو اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا کندھا دستیاب ہوتا ہے، جس سے نہ صرف جمہوری نظام کمزور پڑتا جا رہا بلکہ رہی سہی سیاسی اسپیس بھی ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ملک میں آئین بے عمل ہوچکا ہے، سیاست ایک بھنور میں گھوم رہی ہے اور جمہوریت ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے جا رہی ہے۔ بچے کچھے جمہوریت کے داعی ایک بار پھر سپریم کورٹ پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔