9 مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد سیاسی مشکلات سے دوچار پاکستان تحریک انصاف کا وفد پہلی بار سیاسی حریف مولانا فضل الرحمان سے ان کی خوشدامن کے انتقال پر تعزیت کے لئے ان کی رہائش گاہ پہنچا تو مولانا فضل الرحمان نے پی ٹی آئی وفد کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا۔ خلاف توقع خوشگوار ماحول میں ہونے والی یہ ملاقات کشت زعفران بن گئی۔ پی ٹی آئی نے اس ملاقات میں سیاسی گفتگو کی تردید کی تاہم جمعیت علما اسلام (جے یو آئی) کے مرکزی ترجمان کہتے ہیں اس ملاقات کے بعد برف پگھلنے لگی ہے۔
گالیاں دینے والوں کو خوش آمدید کہا
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے جمعیت علما اسلام کے سینیئر رہنما اور مرکزی ترجمان اسلم غوری نے پی ٹی آئی وفد کی مولانا فضل الرحمان سے تعزیت کے لیے آمد کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ ملاقات سے برف پگھلنے لگی ہے، مولانا فضل الرحمان نے گالیاں دینے والی حریف جماعت کے وفد کو خوش آمدید کہا ہے۔
ملاقات میں کیا سیاسی گفتگو ہوئی؟
اسلم غوری نے ملاقات کے حوالے سے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان اور پی ٹی آئی وفد کے درمیان ملاقات کچھ زیادہ لمبی نہیں تھی بلکہ مختصر ملاقات تھی۔ ’جب سیاسی لوگ ملتے ہیں تو سیاسی گفتگو تو ہوتی ہے، اشاروں میں بھی بات ہو جاتی ہے، ملاقات کے لیے آمد سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے‘۔
مزید پڑھیں
جے یو آئی رہنما نے مزید بتایا کہ مولانا خوشگوار انداز میں پی ٹی آئی رہنماؤں سے ملے اور ان کی تعزیت قبول کی، وفد نے مولانا صاحب کی تعریف کی خصوصاً ان کے اس بیان کی جس میں مولانا نے کہا تھا کہ ان کے سیاسی حریف کو جیل میں نہیں ہونا چاہئے، گالیاں دینے والے خود ائے تھے اور جو بھی ہمارے گھر آئے ہم اسے خوش آمدید کہتے ہیں‘۔
اس سوال پر کہ کیا مستقبل میں کوئی ملاقات اور رابطے بڑھانے کے حوالے سے بات ہوئی، اسلم غوری نے جواب دیا کہ ملاقات میں اس پر کوئی بات نہیں ہوئی البتہ سیاست میں کوئی حرف آخری نہیں ہوتا۔
اتحاد ممکن ہے مگر۔۔۔
آئندہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے درمیان ممکنہ اتحاد کے حوالے سے اسلم غوری نے بتایا کہ ابھی تک تو یہ ممکنات میں شامل نہیں لیکن مستقبل کے بارے میں وہ کچھ کہہ نہیں سکتے۔ انھوں نے بتایا کہ فی الوقت پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے انتخابی اتحاد کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا لیکن سیاست میں گنجائش ہوتی ہے، بات چیت اور اتحاد ممکن ہے اگر پی ٹی آئی عمران خان اور پرانی پالیسیوں سے علیحدگی کا اعلان کرے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پی ٹی آئی کی پالیسیوں سے انھیں شدید اختلاف ہے اور جے یو آئی ایسی پالیسیوں کے ساتھ نہیں چل سکتی، ہماری جماعت مذہبی جماعت ہے، ہم اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں اور تحریک انصاف کی پالیسیوں سے ہمیں شدید اختلاف ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ مائنس عمران خان کی بات نہیں کر رہے بلکہ پارٹی پالیسیوں کی بات کر رہے ہیں۔
عمران خان اور پی ٹی آئی سیاسی حریف ہیں
اسلم غوری نے بتایا کہ تحریک انصاف اور عمران خان جے یو آئی کے سرفہرست سیاسی حریف ہیں، عمران خان کی جماعت 9 سال مسلسل حکومت میں رہی اور اس دوران انھوں نے ہمیں گالیاں ہی دیں لیکن ہم نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔
انھوں نے بتایا کہ عمران خان کی سیاست میں مخالفین پر الزامات لگانا اور جلسے جلسوں میں نازیبا الفاظ استعمال کرنا شامل تھا مگر اس کے باوجود بھی جے یو آئی کو پی ٹی آئی سے کوئی مسئلہ نہیں، جے یو آئی کو صرف ان کی پالیسیوں سے مسئلہ ہے۔
کچھ کہے بنا سب کچھ کہہ دیا
پشاور کے سنیئر صحافی کاشف الدین سید بھی گزشتہ روز مولانا فضل الرحمان اور پی ٹی آئی وفد کے درمیان ملاقات کے وقت وہاں موجود تھے۔ انھوں نے وی نیوز کو بتایا کہ سیاسی اختلافات کے باوجود مولانا فضل الرحمان نے کھلے دل سے انھیں خوش آمدید کہا، وفد کے مولانا کی رہائش گاہ پہنچنے کے بعد نماز کا وقت ہوا تو سب نے مولانا کی امامت میں نماز ادا کی جس کے بعد ان کی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ شاید سیاسی بات نہ ہوئی ہو لیکن آنے کا مقصد سیاسی تھا اور جو پیغام دینا تھا کچھ بولے بغیر دے دیا۔
نام بگاڑنے پر مولانا ناراض ہیں
کاشف الدین سید نے بتایا کہ جے یو آئی اور پی ٹی ائی میں اتحاد آسان نہیں۔ جے یو آئی شاید اتحاد کے لیے تیار نہ ہو۔ انہوں نے مزید بتایا کہ موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کو اتحاد کی ضرورت ہے لیکن جے یو آئی کو نہیں، ماضی میں پی ٹی آئی والے مولانا کو اچھے الفاظ سے نہیں پکارتے تھے جس کی وجہ سے تلخیاں ہیں۔
کیا دونوں جماعتوں کے رہنما ایک دوسرے کے پاس تعزیت کے لئے جاتے رہے؟
پاکستان تحریک انصاف کے 9 سالہ اقتدار کے دوران جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے عزیزواقارب کے انتقال کے مواقع پر دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کو تعزیت کے لئے ایک دوسرے کے ہاں جاتے نہیں دیکھا گیا۔ سیاست پر نظر رکھنے والے صحافیوں کے مطابق یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پی ٹی آئی کا وفد تعزیت کے لئے جے یو آئی کے رہنما کے گھر گیا۔
کاشف الدین کے مطابق یہ سیاسی ملاقات تھی اور اب مستقبل میں دونوں جماعتوں کے رہنما ایک دوسرے سے ملنے کی خواہش کا اظہار کریں کریں گے تاکہ سیاسی طور پر ان کے لیے راہ صاف ہوسکے۔
اسد قیصر کیا کہتے ہیں؟
مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے لیے جانے والے پاکستان تحریک انصاف کے وفد کی قیادت اسد قیصر کر رہے تھے۔ وی نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مولانا سے ان کی ملاقات سیاسی نہیں تھی بلکہ وہ تعزیت کے لیے ان سے ملنے گئے تھے اور اس ملاقات کے دوران کوئی سیاسی گفتگو نہیں ہوئی تھی۔