پاکستان کرکٹ ٹیم کی جنوبی افریقہ کے ہاتھوں شکست کے بعد پوری قوم ہی دکھ میں ہے۔ سیمی فائنل تک رسائی کی مہم میں قومی ٹیم کے لیے یہ میچ جیتنا نہایت اہم تھا۔ ویسے ہماری ٹیم نے اس میچ کو جیتنے کی کوشش بھی کی لیکن آخری وکٹ پر فیصلہ وہ ہوا جو ہمارے حق میں نہیں تھا۔
گزشتہ کچھ دنوں سے کرکٹ شائقین اور مبصرین اس بات کو رو رہے تھے کہ ورلڈ کپ میں کوئی کانٹے کا مقابلہ یا کوئی میچ آخری گیند پر ختم نہیں ہو رہا اور ہر میچ یک طرفہ ثابت ہو رہا ہے تاہم لیکن پاکستان اور جنوبی افریقہ کے میچ نے سب کا یہ شکوہ بھی دور کر دیا۔ پاکستان ٹیم نے پوری دنیا کو کانٹے کا مقابلہ دے کر محظوظ تو کیا لیکن اپنے مداحوں کو پھر سے ایک بڑا دکھ دے دیا۔
آسٹریلیا کے خلاف 2021 کے آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا سیمی فائنل ہویا پھر گزشتہ روز کے میچ تک ایک بات تقریبا ہر بڑے میچ میں دیکھنے کو ملی وہ یہ کہ میچ پاکستانی ٹیم کے ہاتھ کو آتا ہے لیکن منہ کو نہیں لگتا۔ اب اسے کپتان بابر اعظم کی بدقسمتی سمجھ لیں اور یا ٹیم کی نا تجربہ کاری، آپ کی مرضی ہے۔
ہر اہم اور بڑے میچ میں ایک وقت پر لگتا ہے کہ اب تو پاکستانی ٹیم ہر صورت یہ میچ جیت جائے گی، اب بس فتح ہماری ہے۔ میچ کے حالات بتا رہے ہوتے ہیں کہ اگلی ٹیم ہلکی پڑ گئی ہے لیکن پھر کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ وہ میچ ہم سب کے لیے پچھتاوا اور گہرا غم بن جاتا ہے۔
2021 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں بھی پاکستان نے آسٹریلیا کے پانچ کھلاڑی 96 کے سکور پر آؤٹ کر لیے تھے۔ سب کو لگ رہا تھا کہ پاکستان فائنل میں پہنچ جائے گا لیکن پھر میتھیو ویڈ اور مارکس سٹائونس کی اننگز اور حسن علی کے کیچ چھوڑنے کی وجہ سے پاکستان ‘ریڈ ہاٹ فیورٹ’ ہونے کے باوجود سیمی فائنل ہار گیا۔
اسی طرح اگلا سال آیا اور ایشیا کپ کے فائنل میں پاکستانی گیند بازوں نے عمدہ آغاز کیا اور ایک وقت پر سری لنکا کے 58 سکور پر پانچ آؤٹ بھی کر لیے لیکن پھر وہاں سے سری لنکا کے دو بلے بازوں کی پارٹنرشپ نے پاکستان کو ٹائٹل سے محروم کر دیا۔ اس کے بعد آسٹریلیا میں کھیلے گئے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں روایتی حریف بھارت کے خلاف بھی پاکستان کی ایک وقت پر واضح جیت نظر آنے لگی۔ پہلے تو بھارت کے چار بیٹسمین صرف 44 رنز پر آؤٹ ہوگئے اور اُس کے بعد ایک ایسی صورتحال بھی آئی جس میں قومی ٹیم کی جیت یقینی نظر آ رہی تھی۔ 18 گیندوں پر بھارتی ٹیم کو 48 سکور درکار تھے لیکن ویرات کوہلی نے میچ پاکستان کے ہاتھ سے چھین لیا۔
اسی طرح ورلڈ کپ 2022 میں ہی زمبابوے کے خلاف پاکستانی ٹیم نے بولنگ بہت اچھی کی اور انہیں 130 پر آؤٹ کر لیا تھا۔ پھر ہدف کے تعاقب میں پاکستانی بیٹنگ ڈگمگائی ضرور تھی لیکن آخری اوور میں یوں لگ رہا تھا کہ یہ سکور پاکستان آسانی سے حاصل کر لے گا لیکن پھر وہی ہوا کہ آسان فتح پاکستان سے دور چلی گئی۔اور پاکستان زمباوے سے ایک رن سے ہار گیا تھا۔
یہ سلسلہ یہیں نہیں رُکا بلکہ گزشتہ ماہ سری لنکا میں ہونے والے ایشیا کپ میں بھی یہ روایت برقرار رہی۔ پاکستان نے سوپر فور مرحلے کا آخری میچ سری لنکا کے خلاف ہر صورت جیتنا تھا لیکن وہ میچ بھی پاکستان آخر میں آکر ایک ‘ایج’ کی وجہ سے ہار گیا۔
پاکستانی ٹیم کی بُری قسمت یا کارکردگی صرف ایشیا کپ تک نہیں تھی بلکہ اس جاری ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ کے خلاف میچ کے علاوہ اس سے پہلے تینوں میچوں میں قومی ٹیم یہ ہی کر چکی ہے۔ انڈیا کے خلاف مستحکم آغاز کیا اور پھر 151 سے 191 پر پوری ٹیم آؤٹ ہوگئی۔ آسٹریلیا کے خلاف بڑے ہدف کے لیے اوپننگ جوڑی نے شاندار آغاز کیا جس کے بعد یوں محسوس ہوا کہ پاکستان یہ ہدف آسانی سے حاصل کر لے گا مگر پھر وہی نتیجہ نکلا جو اوپر بتائے گئے میچوں میں نکلا تھا۔
اسی طرح افغانستان کے خلاف 283 رنز کا مناسب ہدف دینے کے باوجود پاکستان بولنگ نے آؤٹ کرنے کی ہمت ہی نہ کی اور وہ میچ جو پاکستان کو لازمی جیتنا چاہیے تھا وہ ہار گئے۔
2021 سے لے کر اب تک ملک کے تین وزیراعظم اور تین حکومتیں بدل چکی ہیں لیکن جو ایک چیز نہیں بدلی وہ ہے پاکستانی ٹیم کی قسمت۔ بابر اعظم کی قیادت میں پاکستانی ٹیم سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں بھی وہی غلطیاں کرتی رہی پھر سابق وزیراعظم شہباز شریف کے دور میں بھی وہی غلطیاں کرتی رہی اور پھر نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے دور میں بھی وہی غلطیاں کر رہی ہے۔
اب ‘مستقبل’ کے وزیراعظم نواز شریف بھی ملک کے حالات تبدیل کرنے کے لیے واپس آگئے ہیں لیکن پتا نہیں پاکستان ٹیم کے حالات کب بدلیں گے۔ قوم جس طرح پچھلے دو برسوں سے پیٹرول اور دیگر چیزوں کی قیمتوں کی کمی کے لیے ترس رہی ہے بالکل ویسے ہی بابر الیون قوم کو جیت کے لیے ترسا رہی ہے۔
نواز شریف نے وطن واپسی پر جلسے میں پاکستان کے مستقبل کے لیے دعا کروائی تھی لگتا ہے اب بابر اعظم کو بھی قوم سے اجتماعی دعا کروانا ہوگی کیونکہ ملک کے حالات ہوں یا ٹیم کا ورلڈ کپ کا سفر، بات دعاؤں پر آ پہنچی ہے۔