‏انٹرنیٹ نے 80 برس بعد دوسری عالمی جنگ کا گمشدہ سپاہی کیسے ڈھونڈ نکالا؟

پیر 30 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی فتح میں متحدہ  ہندوستان کی فوج نے اہم کردار ادا کیا۔ برطانیہ نے اس جنگ میں فتح کے لیے اپنی نوآبادیات کے تمام وسائل کا رخ میدان جنگ کی جانب موڑ دیا۔ متحدہ ہندوستان سے خوراک، اسلحہ سمیت ہر طرح کی پیداوار پر سب سے پہلے برطانیہ کا حق تسلیم کیا گیا۔ تقریباً 25 لاکھ ہندوستانی سپاہیوں نے برطانیہ کی جانب سےبراہ راست اس جنگ میں حصہ لیا جب کہ اس سے بھی بڑی تعداد جنگ کے باعث پھیلنے والے قحط سے ماری گئی۔

میدان جنگ میں شریک لاکھوں ہندوستانی سپاہیوں میں سے تقریباً 90 ہزار فوجی مارے گئے۔ سیکڑوں بلکہ ہزاروں خاندانوں کے سپوت اپنے گھروں سے ایک بار نکلے تو دوبارہ واپسی ممکن نہ رہی۔

سپاہی فیروز دین کی کہانی:

تتہ پانی، آزادکشمیر سے تعلق رکھنے والے سپاہی فیروز دین بھی برطانوی ہند کی فوج میں بھرتی ہونے والے ہزاروں سپاہیوں میں سے ایک تھے۔ فوج میں شمولیت کے بعد وہ ففتھ بٹالین، سیونتھ راجپوت رجمنٹ  کا حصہ بنے۔ اس رجمنٹ کو برطانیہ نے ہانگ کانگ کے دفاع پر مامور کیا تھا۔ دسمبر 1941 میں جاپانی فوج نے ہانگ کانگ پر حملہ کیا اور کرسمس کے دن سہ پہر کے وقت برطانوی فوج نے ہتھیار ڈال دئیے۔ سپاہی فیروز دین 19 دسمبر 1941 کو سرینڈر سے 6 روز قبل جاپانی فوج کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ یہاں تک کی کہانی تو ٹھیک تھی لیکن اس میں دلچسپ موڑ تب آیا جب ان کے خاندان کو کچھ عرصے بعد صرف یہ خبر تار کے ذریعے دی گئی کہ آپ کا بیٹا جنگ میں مارا گیا ہے۔ فیروز دین کے خاندان کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ ان کا بیٹا کس محاذ پر لڑتے ہوئے مارا گیا اور کیا کبھی اس کی لاش بھی واپس آسکے گی یا نہیں۔

اس حوالے سے مزید تفصیل تب معلوم ہوئی جب فیروز دین کے رشتے دار ‘محمد اقبال’  جو اُسی محاذ پر برسرِ پیکار رہے تھے، وہ جاپانیوں کی قید سے رہائی حاصل کر کے اپنے علاقے میں واپس آئے۔ سپاہی محمد اقبال نے جو معلومات اپنے خاندان کو دیں اس کے مطابق وہ ایک  ایسے محاذ پر لڑے ہیں جس کے ایک طرف پہاڑ اور دوسری جانب سمندر تھا۔ سپاہی محمد اقبال دوسری عالمی جنگ کے نصف صدی بعد وفات پا گئے اور ان کی بتائی ہوئی دیگر نشانیوں سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کہاں دفن تھے۔

فیروز دین کی تلاش:

سیف اللہ جو رشتے میں فیروز دین کے بھتیجے لگتے ہیں، ان کی پیدائش نوے کی دہائی میں ہوئی۔ اپنے بچپن میں انہوں نے اپنے تایا فیروز دین سے متعلق مختلف کہانیاں سنی تھیں جو دوسری عالمی جنگ میں مارے گئے تھے۔ اس سے متعلق مزید معلومات وہ اکٹھی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ فیروز دین کے ساتھ جنگ میں شریک ہونے والے رشتے دارمحمد اقبال فوت ہو چکے تھے۔ ان کے پاس صرف ایک ذریعہ تھا کہ وہ ایسے محاذ تلاش کریں جہاں ہندوستانی افواج برطانیہ کے لیے لڑی ہوں اور اس کے جغرافیے میں ایک طرف پہاڑ اور دوسری جانب سمندر ہوں۔

سیف اللہ نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے جب انٹرنیٹ پر تحقیق شروع کی تو انہیں معلوم ہوا کہ دوسری عالمی جنگ میں ہانگ کانگ اور برما دو ایسے محاذ تھے جس کا جغرافیہ ان کی معلومات کے مطابق تھا۔ اس کے بعد انہوں نے یہ دیکھنا شروع کیا کہ ہندوستانی افواج کی کون کون سی رجمنٹس ان محاذوں پر تعینات رہی ہیں۔ اگلے مرحلے میں انہوں نے ان رجمنٹس میں بھرتی ہونے والے افراد کا ڈیٹا نکالا۔ ‘کامن ویلتھ وار گریو کمیشن’ کے ڈیٹا بیس سے انہیں معلوم ہوا کہ ہانگ کانگ کے محاذ پر لڑنے والی ففتھ بٹالین، سیونتھ راجپوت رجمنٹ   میں سپاہی کشمیر کے ضلع پونچھ سے بھرتی کیے گئے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے اس بٹالین کے مارے جانے والےسپاہیوں کا ریکارڈ نکالا تو اس میں سپاہی فیروز دین کا نام بھی شامل تھا۔

سائی وان وار میموریل:

ہانگ کانگ کے محاذ پر مارے جانے والے برطانوی، کینیڈین اور ہندوستانی سپاہیوں کی تدفین 2 قبرستانوں میں کی گئی۔ دوسری عالمی جنگ میں  مارے جانے والےڈیڑھ ہزار  سپاہیوں کی  تدفین سائی وان قبرستان میں کی گئی جب کہ اسی قبرستان میں ساڑھے چار سو کے لگ بھگ ایسے سپاہیوں کی قبریں بھی ہیں جن کی شناخت نہیں ہو سکی۔ ہانگ کانگ میں دوسری عالمی جنگ میں مارے جانے والے اتحادی فوج کے دیگر  سپاہیوں کو اسٹینلے فوجی قبرستان میں دفنایا گیا۔ ‘کامن ویلتھ وار گریو کمیشن’ کے مطابق  سپاہی فیروز دین کی قبر سائی وان کے قبرستان میں ہے۔

قبر تو اسی قبرستان میں تھی مگر ہے کہاں؟

اب اگلا مرحلہ ہانگ کانگ کے سائی وان قبرستان میں سپاہی فیروز دین کی قبر تک پہنچنے کا تھا۔ اس کے لیے ہم نے ہانگ کانگ میں موجود پاکستانی شہریوں سے رابطہ کیا۔ پاکستانی قونصلیٹ میں تعینات اہلکار تصور نے سائی وان وار میموریل کی انتظامیہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ سپاہی فیروز دین کی قبر تو اسی قبرستان میں ہے مگر وہ ان بدقسمت سپاہیوں میں شامل تھے جن کی شناخت نہیں ہو سکی تھی۔اس معاملے کی تصدیق  سائی وان قبرستان کا وزٹ کرنے والے ڈاکٹر عمیر نے بھی کی، کیونکہ اس قبرستان کے ریکارڈ میں سپاہی فیروز دین کا نام درج تھا۔ سپاہی فیروز دین کی قبر تو اسی قبرستان میں موجود 4سو چوالیس نامعلوم قبروں میں سے ایک ہے لیکن ان کا نام قبرستان میں قائم سپاہیوں کی یادگار پر ضرور درج ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp