آج سے ٹھیک 68 برس قبل 30 اکتوبر 1955 کے روز پاکستان کرکٹ ٹیم کے مایہ ناز وکٹ کیپر اور بلے باز آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کرنے کے لیے جناح باغ لاہور کے میدان میں اترے، پاکستان اپنی پہلی اننگز میں نیوزی لینڈ کے 348 رنز کے تعاقب میں تھا اور بیٹنگ لائن لڑکھڑا چکی تھی۔ امتیاز احمد نے نہایت ذمہ داری سے شاندار بلے بازی کرتے ہوئے 209 رنز بنائے۔ وہ 308 منٹ تک کریز پر ڈٹے رہے، ان کی اس یادگار اننگز میں 28 چوکے بھی شامل تھے۔
امتیاز احمد کی ڈبل سینچری کی بدولت پاکستان نے نہ صرف 561 رنز بنائے جبکہ میچ کے آخری روز 4 وکٹوں سے کامیابی سمیٹ کر 3 ٹیسٹ میچز کی سیریز 2 صفر سے اپنے نام بھی کی تھی۔ کراچی میں کھیلے گئے پہلے میچ میں پاکستان ایک اننگز اور ایک رنز سے کامیابی سمیٹ چکا تھا جبکہ ڈھاکا میں کھیلا گیا تیسرا ٹیسٹ میچ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوا تھا۔
امتیاز احمد کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے آٹھویں نمبر پر بلے بازی کرتے ہوئے نہ صرف 209 رنز سکور کیے بلکہ وہ کرکٹ کی تاریخ میں ڈبل سینچری بنانے والے پہلے وکٹ کیپر بھی بنے۔ امتیاز احمد کا ایک منفرد ریکارڈ یہ بھی ہے کہ انہوں نے ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگز میں سینچری کی تو دوسری میں انہیں حیرت انگیز طور پر صفر کا سامنا کرنا پڑا۔ امتیاز احمد کو سینچری اور صفر کا اعزاز بھی 2 بار حاصل ہوا۔
1955ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف لاہور میں پہلی اننگز میں 209 رنز سکور کیے جبکہ دوسری اننگز میں صفر پر آؤٹ ہوئے۔ اسی طرح 1958 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کنگسٹن ٹیسٹ میں پہلی اننگز میں 122 رنز بنائے تو دوسری اننگز میں بنا کھاتا کھولے پویلین لوٹ گئے۔
امتیاز احمد بہترین اور قابل فخر آل راؤنڈر تھے جنہوں نے 1950 کے اوائل میں پاکستان کرکٹ کو کامیاب آغاز سے نوازا۔ وہ عبدالحفیظ کاردار کی قیادت میں پاکستان کی پہلی ٹیسٹ ٹیم کا حصہ بنے، انہوں نے بلے باز کی حیثیت سے پہلے 3 ٹیسٹ میچ کھیلے لیکن 1952 کے دورہ بھارت (پاکستان نے ٹیسٹ سٹیٹس ملتے ہی بھارت کا پہلا دورہ کیا تھا، سیریز میں 5 ٹیسٹ کھیلے گئے تھے) کے دوران چنئی ٹیسٹ میں حنیف محمد سے کیپنگ گلوز لیے اور پھر 1962 میں اوول میں کھیلے گئے اپنے آخری ٹیسٹ میچ تک وکٹ کیپنگ کی۔ ان کی شہرت مایہ ناز وکٹ کیپر بیٹسمین کی تھی۔
امتیاز احمد نے 1952 میں اپنے ڈیبیو میچ سے لے کر 1962 میں انگلینڈ میں کھیلے گئے آخری میچ، اوول ٹیسٹ تک 41 ٹیسٹ میچ کھیلے۔ انہوں نے پاکستان کے پہلے 39 ٹیسٹ میچ کھیلنے کا منفرد ریکارڈ بھی اپنے نام کیا تھا لیکن زمبابوے کے الیسٹر کیمپبیل نے ان کا ریکارڈ چھین لیا تھا، جنہوں نے زمبابوے کے پہلے تمام 56 ٹیسٹ میچ کھیلے جبکہ اینڈی فلاور بھی پہلے 52 ٹیسٹ میچز میں شامل ہوئے تھے۔
امتیاز احمد نے قیام پاکستان سے قبل مغربی بھارت کی طرف سے فرسٹ کلاس کرکٹ (رانجی ٹرافی) کھیلی بعد ازاں پاکستان ایئر فورس اور پنجاب کی نمائندگی کرتے ہوئے بھی اپنا سکہ بٹھایا۔ امتیاز احمد نے 4 ٹیسٹ میچوں میں کپتانی کے فرائض بھی انجام دیے لیکن وہ فتح کی دیوی کو رام نہ کرسکے انہیں 2 ٹیسٹ میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا جبکہ 2 ٹیسٹ میچ بنا کسی نتیجے کے ختم کر دیے گئے۔
امتیاز احمد نے 41 ٹیسٹ میچوں کی 72 اننگز میں ایک بار ناٹ آؤٹ رہتے ہوئے 29.28 کی اوسط سے 2079 رنز بنائے، ان کا سب سے زیادہ سکور 209 رنز تھا۔ ان میں 3 سینچریاں اور 11 نصف سنچریاں شامل تھیں۔ بطور وکٹ کیپر 77 کیچ پکڑے اور 16 سٹمپ آؤٹ کیے۔
180 فرسٹ کلاس میچز کی 310 اننگز میں 37.37 کی اوسط سے 10391 رنز بنائے جبکہ 300 ناقابل شکست رنز ان کا بہترین سکور تھا۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں 22 سینچریاں اور 45 نصف سینچریاں شامل ہیں۔ وکٹوں کے پیچھے 322 کیچ اور 82 سٹمپ آؤٹ کرکے اپنے جوہر دکھائے۔ 4 وکٹیں بھی ان کے فرسٹ کلاس کیریئر کا حصہ ہیں۔
1960ء میں امتیاز احمد کو صدارتی پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا گیا تھا، انہیں پاک فضائیہ کے لیے خدمات پر تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ وہ 27 سالہ سروس کے بعد ونگ کمانڈر کے طور پر ریٹائر ہوئے۔
امتیاز احمد نے 13 برس تک پاکستان کے سلیکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ 1976 سے 1978 تک سلیکشن کمیٹی کے سربراہ بھی رہے۔ بطور کوچ قریباً 10 برس تک انڈر 19 کرکٹرز کی آبیاری کی۔ انہوں نے 2005 سے 2008 تک قومی خواتین کرکٹ ٹیم کے ایڈوائزر کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔
امتیاز احمد نہ صرف عہد ساز کرکٹر تھے بلکہ وہ بہت اچھا شعری ذوق بھی رکھتے تھے۔ وہ واحد پاکستانی کرکٹر ہیں جن کا ایک شعری مجموعہ ’میرے شعر‘ کے نام سے منظرعام پر آیا تھا۔
اردو کے صاحب طرز مزاح نگار شوکت تھانوی نے کہا تھا کہ ’ امیتاز ایسا کرکٹ کا کھلاڑی اگر صاحب دیوان بن سکتا ہے تو حفیظ جالندھری کو آئندہ سال ٹیسٹ میچز کھیلنے پاکستان ٹیم کے ساتھ ولایت بھیجنا پڑے گا، اور عبدالحفیظ کاردار شاہنامہ کی باقی جلدیں لکھنے میں یہ کہہ کر مصروف ہوجائیں گے کہ کرکٹ ٹیم کو ایک حفیظ چاہیے، وہ کاردار نہ سہی جالندھری سہی اور دنیائے شعر کو ایک حفیظ چاہیے وہ جالندھری نہ سہی کاردار ہی سہی۔‘
امیتاز احمد کی ایک مشہور نظم ’اندیشہ‘ قارئین کے ذوق سلیم کی نذر:
’تیرے خاموش لبوں پر یہ تکلم کی نمود
تیری چپ چاپ نگاہوں میں یہ الفت کا پیام
یہ تو سچ ہے کہ یہ آغاز حسیں ہے لیکن
کون جانے کہ اس آغاز کا کیا ہو انجام
یہ تیرے ریشمیں آنچل کی سنہری چھاؤں
وقت کے ساتھ ہی اک روز نہ ڈھل جائے کہیں
تیری خاموش نگاہوں میں محبت کا یہ عہد
اس حسیں عہد کا مطلب نہ بدل جائے کہیں
سوچتا ہوں یہ ترا ربط مسلسل ہی کہیں
پیش فرمائی احساس گریزاں تو نہیں
یہ عنایت یہ نوازش یہ توجہ یہ کرم
چند لمحات کی تسکین کا ساماں تو نہیں‘
امتیاز احمد 5 جنوری 1928 کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ 31 دسمبر 2016 کو 88 برس اور 361 دن کی عمر میں اپنی 89ویں سالگرہ سے 5 روز قبل لاہور میں ہی انتقال کر گئے۔ انہوں نے پسماندگان میں ایک بیٹا اور 3 بیٹیاں چھوڑی ہیں۔