اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اپنی اس پوسٹ کے لیے معذرت کی ہے جس میں انہوں نے حماس کے 7 اکتوبر کو ہونے والے حملے کا اندازہ لگانے میں ناکامی کے لیے ملک کی سیکیورٹی سروسز کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا، ان کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں ان کی جانب سے اس نوعیت کے تبصرے کرنا ’غلط‘ تھا جب اتحاد سب سے بڑھ کر اہمیت کا حامل ہے۔
اپنی ایک حالیہ سوشل میڈیا پوسٹ میں، نیتن یاہو نے اپنی ہی انٹیلیجنس سروسز پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ انہیں حماس کے بڑھتے ہوئے حملے کے بارے میں متنبہ کرنے میں ناکام رہی ہیں اور اس کے بجائے انہیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ حملہ آور گروپ کو منتشر کر دیا گیا ہے۔
نیتن یاہو نے ایکس یعنی سابقہ ٹوئٹر پر، اب حذف شدہ، اپنی پوسٹ میں لکھا تھا کہ حماس کے جنگی ارادوں کے بارے میں وزیراعظم نیتن یاہو کو کسی بھی وقت اور کسی مرحلے پر کوئی انتباہ نہیں دیا گیا تھا۔ ’اس کے برعکس، فوج کے انٹیلیجنس کے سربراہ اور شن بیت کے سربراہ سمیت تمام سیکیورٹی حکام نے اندازہ لگایا تھا کہ حماس کو روک دیا گیا ہے اور ان کی کسی تصفیہ میں دلچسپی ہے۔‘
טעיתי. דברים שאמרתי בעקבות מסיבת העיתונאים לא היו צריכים להיאמר ואני מתנצל על כך. אני נותן גיבוי מלא לכל ראשי זרועות הביטחון. אני מחזק את הרמטכ״ל ואת מפקדי וחיילי צה״ל שנמצאים בחזית ונלחמים על הבית. יחד ננצח.
— Benjamin Netanyahu – בנימין נתניהו (@netanyahu) October 29, 2023
‘قیادت زیادہ تر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتی ہے’
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ان ریمارکس پر اتحادیوں سمیت ساتھی اسرائیلی رہنماؤں کی طرف سے فوری طور پر سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ انگلی اٹھانے کے بجائے اتحاد کا وقت ہے۔
حملے کے بعد نیتن یاہو کی جنگی کابینہ میں شامل ہونے والے سابق وزیر دفاع بینی گینٹز نے کہا کہ ملک کو درپیش جنگی صورتحال میں قیادت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، صحیح کام کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے افواج کو مضبوط کرنا چاہیے۔’کوئی دوسرا عمل یا بیان لوگوں کے عزم اور ان کی طاقت کو نقصان پہنچاتا ہے، وزیراعظم کو اپنا بیان واپس لینا چاہیے۔‘
حزب اختلاف کے رہنما اور سابق وزیر اعظم یائر لاپڈ نے نیتن یاہو پر آخری حد عبور کرتے ہوئے فوج کو کمزور کرنے کا الزام لگایا، وزیر اعظم نیتن یاہو نے متنازعہ پوسٹ کو فوری طور پر حذف کر دیا اور اپنے اگلے بیان میں اپنی سیکیورٹی سروسز کو کم اہم کرنے پر معافی مانگی، اور تمام ایجنسیز کو اپنی مکمل حمایت کا یقین بھی دلایا۔
وزیر اعظم نیتن یاہو نے ایکس پر اپنی آخری پوسٹ میں لکھا ہے کہ جو باتیں انہوں نے کہی ہیں، وہ نہیں کہنی چاہییں تھیں اور وہ اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ ’میں سیکیورٹی برانچ کے تمام سربراہان کی مکمل حمایت کرتا ہوں …متحد ہو کر ہم جیتیں گے۔‘
جب کہ اسرائیل کے فوجی اور انٹیلی جنس سربراہوں نے حملے کا سبب بننے والی اپنی کوتاہیوں کو تسلیم کیا ہے، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کسی بھی قسم کی ذمہ داری اپنے سر لینے سے گریز کیا ہے، جس سے ان کے اور سیکیورٹی کے مختلف محکموں کے درمیان بڑھتی ہوئی دراڑ پیدا ہو گئی ہے۔ نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ جنگ کے بعد خود سے سخت سوالات پوچھنے کا وقت آئے گا۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ردعمل نے عوامی خدشات میں اضافہ کر دیا ہے کہ وہ قومی سلامتی پر اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں، کیونکہ انہیں بدعنوانی کے ایک ایسے عدالتی مقدمے کا بھی سامنا ہے، جو ان کے اقتدار کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
حزب اختلاف کے قانون ساز ایویگڈورلائبرمین نے، جو کبھی نیتن یاہو کی کابینہ میں وزیر دفاع بھی رہ چکے ہیں، ایک ریڈیو انٹرویو میں وزیر اعظم نیتن یاہو پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ صرف سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں، ملکی سلامتی اور یرغمالیوں سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق نیتن یاہو کی اپنی کابینہ کے ساتھ عوامی سطح پر ’الفاظ کی جنگ‘ اس وقت سامنے آئی ہے جب انہیں حکومت کی ناکامیوں کو تسلیم نہ کرنے پر زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نیتن یاہو نے ٹوئیٹس کے لیے معافی مانگی ہے لیکن ابھی تک، تنقید کے باوجود، خود معافی نہیں مانگی ہے یا حملے کو روکنے میں ناکامی کا کوئی الزام اپنے سر نہیں لیا ہے، ایسے وقت میں جب کہ اتحادی حکومت کو متحد ہونا چاہیے تھا۔
جنگ کا ‘دوسرا مرحلہ’
نیتن یاہو کا اپنے انٹیلیجنس یونٹوں کے ساتھ عوامی تصادم اس وقت ہوا جب اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں اپنی جنگ کے ’دوسرے مرحلے‘ کا آغاز کیا، جس میں اضافی زمینی دراندازیوں کے ساتھ ساتھ مسلسل فضائی بمباری میں اضافہ بھی شامل تھا۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم ابھی جنگی شروعات میں ہیں۔ ’ہم زمین کے اوپر اور نیچے دشمن کو تباہ کر دیں گے۔‘
حماس کی جانب سے اسرائیلی سرزمین پر ایک حیرت انگیز حملے کے بعد جس میں 14 سو اسرائیلی ہلاک ہوگئے تھے، اسرائیل تین ہفتوں سے غزہ کی پٹی پر حملہ کر رہا ہے، اسرائیل کے فضائی حملوں میں 8 ہزار فلسطینی مارے گئے جن میں زیادہ تر عام شہری اور بہت سے بچے شامل ہیں، ان ہلاکتوں سمیت اسرائیلی حملوں کے مقصد غزہ کا بنیادی ڈھانچہ بھی تباہی سے دوچار ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریز نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی کا ایک بار پھر مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کی صورت حال وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ مایوس کن ہوتی جا رہی ہے۔
مایوسی سے دوچار ہزاروں فلسطینیوں نے اتوار کو خوراک اور بنیادی ضروریات کے لیے اقوام متحدہ کے گوداموں پر دھاوا بول دیا۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ مزید امدادی ٹرکوں کو غزہ کے فلسطینی انکلیو میں داخلے کی اجازت دے گا۔