اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاق سے ’فون ٹیپنگ‘ کے قانونی دائرہ کار پر جواب طلب کرلیا

پیر 30 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اٹارنی جنرل نے آڈیو لیک کیس کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے ان کیمرہ سماعت کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ خفیہ اداروں کے پاس فون پر نجی گفتگو اور آڈیو ریکارڈ کرنے کے لامحدود اختیار نہیں، جس پر جسٹس بابر ستار بولے؛ آڈیو لیکس کے معاملے پر الزام تراشی نہیں بلکہ شہریوں کو یہ بتانا مقصود ہے کہ انکے حقوق کیا ہیں، بینظیر بھٹو کیس سے اب تک یہ چیزیں ریکارڈ پر ہیں۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کی آڈیو لیکس پر طلبی نوٹس کیخلاف درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار کیس نے کی۔ بشری بی بی کے وکیل بیرسٹر گوہر خان عدالت جبکہ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے روسٹرم پر بتایا کہ عدالت نے پانچ سوالات پر معاونت طلب کی تھی، جس پر انہوں نے تحریری دلائل عدالت میں جمع کرا دیے ہیں، جس پر جسٹس بابر ستار نے کہا کہ پہلے اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں پھر آپ کو سنیں گے۔

اٹارنی جنرل منصور اعوان نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی رائے یہ ہے پارلیمانی کمیٹی کو کارروائی شروع نہیں کرنی چاہیے تھی، کسی انفرادی شخص کی آڈیو ٹیپ کا تعلق قومی اسمبلی کے ساتھ نہیں تھا، پارلیمانی کمیٹی اس طرح نوٹس نہیں کر سکتی تھی۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے سابق چیف جسٹس آف پاکستان کے صاحبزادے نجم الثاقب کے خلاف کارروائی کا آغاز نہیں کرنا چاہیے تھا، انہوں نے واضح طور پر عدالت کو بتایا کہ ان کی رائے میں پارلیمانی کمیٹی کو کارروائی شروع نہیں کرنا چاہیے تھی، عدالت اس درخواست کو نمٹا دے۔

اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ ویسے بھی پارلیمنٹ کے تحلیل ہونے کے بعد عدالتی درخواستیں غیر موثر ہو چکی ہیں، جس پر جسٹس بابر ستار نے دریافت کیا کہ تھوڑا سا سمجھا دیں کیا نجی ٹیلی فون گفتگو ریکارڈ کی جا سکتی ہے اور کون اجازت دیتا ہے، قانون کیا کہتا ہے،کون ایسا کر سکتا ہے۔

’پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی تو کہہ رہی ہے کہ انہوں نے کسی کو اجازت نہیں دی، پہلا سوال یہ ہے کہ الیکٹرونک سرویلنس کیسے ہو رہی ہے اور کون کر رہا ہے۔‘

جسٹس بابر ستار بولے؛ ججوں، وزیراعظم اور لوگوں کی آڈیوز ریکارڈ کی گئیں ہیں اور یہ انتہائی خوفناک بات ہے، اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ انہیں ان آڈیوز کی حقیقت جانچنے کے لیے وقت چاہیے، پہلے یہ طے کرنا ہے کہ یہ ریکارڈنگ خفیہ اداروں نے کی بھی ہے یا نہیں۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ آڈیوز کسی غیر ملکی ایجنسی نے ریکارڈز کی ہیں، وزیراعظم ہاؤس ، وزیر اعظم ، اس کے خاندان اور چیف جسٹس کے خاندان کی آڈیوز لیک ہوئیں، تاہم اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ ایسا بالکل نہیں کہہ رہے۔

جسٹس بابر ستار نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جانتے ہیں آڈیوز کی ریکارڈنگ کے حوالے سے جاننا  ضروری ہے، ایک وزیر اعظم کی ریکارڈنگ بھی ہوئی، ایف آئی اے بھی اس معاملے کو دیکھ رہی ہے، ایف آئی اے نے ابھی تک کیا پتا چلایا ہے۔

اٹارنی جنرل نے آڈیو لیک کیس کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے ان کیمرہ سماعت کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ خفیہ اداروں کے پاس فون پر نجی گفتگو اور آڈیو ریکارڈ کرنے کے لامحدود اختیار نہیں اور اس حوالے سے ان کی صلاحیت متعلق اِن کیمرہ بریفنگ دی جا سکتی ہے۔

جس پر جسٹس بابر ستار بولے؛ آڈیو لیکس کے معاملے پر مقصد الزام تراشی نہیں بلکہ شہریوں کو یہ بتانا مقصود ہے کہ انکے حقوق کیا ہیں، یہ پاکستان کی تاریخ ہے، بینظیر بھٹو کیس سے اب تک یہ چیزیں ریکارڈ پر ہیں، کیا آفسز میں یہ ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے اور پھر اس سے بلیک میل کیا جاتا ہے، آڈیوز لیکس پر جو کمیشن بنا اس کے ٹی او آرز میں یہ تھا ہی نہیں کہ یہ آڈیوز ریکارڈ کون کرتا ہے۔

اٹارنی جنرل کو ہدایات دیتے ہوئے جسٹس بابر ستار نے کہا کہ وزیر اعظم اور کابینہ سے بات کریں کیونکہ آڈیو ٹیپنگ سے متعلق کوئی قانونی فریم ورک ہونا چاہیے، یہ نہیں ہو سکتا کہ ہمارے دفتروں اور چیمبروں میں ہماری گفتگو بھی ریکارڈ ہو رہی ہو۔ آپ کو مناسب وقت دیا جائے گا مگر اس حوالے سے قانونی دائرہ کار سے متعلق جواب جمع کرایا جائے۔

عدالتی معاون سینیٹر رضا ربانی نے عدالت کو بتایا کہ عدالت میں زیر سماعت درخواست غیر موثر ہو چکی ہے، قومی اسمبلی 10 اگست کو اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد تحلیل ہوچکی ہے، رولز کے مطابق اسمبلی کے تحت بنائی گئی تمام کمیٹیاں بھی غیر فعال ہوچکی ہیں، اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم اہم ہے لیکن عدالت خود اس معاملے کو نہیں دیکھے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاق کو جواب جمع کرانے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp