پاکستان میں غیر قانونی مقیم باشندوں کی واپسی کے لیے دی گئی ڈیڈلائن ختم ہونے کے قریب آتے ہی افغان باشندوں کی رضاکارانہ واپسی میں بڑی تیزی آئی ہے۔ یکم اکتوبر سے اب تک 80 ہزار افراد واپس جا چکے ہیں جبکہ آج بھی پاک افغان بارڈر طورخم پر رش ہے۔
طورخم میں موجود ایک سرکاری افسر نے بتایا کہ آج بھی بڑی تعداد میں افغان واپسی کے لیے طورخم پہنچے ہیں۔ لمبی قطار ہے، خواتین، بچے بڑے جو غیر قانونی پر مقیم تھے واپس جا رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ واپس جانے والوں کے لیے انتظامات بھی مکمل کر لیے گئے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں 3 عارضی کیمپ قائم
غیر قانونی طور مقیم باشندوں کی واپسی کے لیے خیبر پختونخوا کے 3 اضلاع پشاور، ہری پور اور طورخم میں 3 عارضی کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ جہاں یکم نومبر کے بعد غیر قانونی مقیم افراد کے خلاف آپریشن کے دوران انھیں ان کیمپوں میں رکھا جائے گا۔ کیمپوں میں تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ جہاں کھانے پینے کے علاوہ رات گزارنے کے لیے بھی انتظامات کئے ہیں۔ کیمپوں میں سیکیورٹی کے لیے بھی اہلکار تعنیات کیے گئے ہیں۔ کیمپوں کی ذمہ داری پی ڈی ایم اے کو دی گئی ہے۔
کیمپوں میں کنتے دن قیام کی اجازت ہوگی؟
محکمہ داخلہ و قبائلی امور خیبر پختونخوا کے ایک افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ تمام انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ یکم نومبر سے باقاعدہ کارروائی کا آغاز کریں گے۔ کیمپوں میں کارروائی کے دوران غیر قانونی مقیم افراد کو ایک دن کے لیے رکھا جائے گا۔ اس دوران قانونی تقاضے پورے کیے جائیں گے اور انہیں طورخم بارڈر سے ڈی پورٹ کردیا جائے گا۔ کیمپوں میں ایف آئی اے، نادرا اور دیگر متعلقہ محکموں کے حکام موجود ہوں گے۔
کیمپوں میں رجسٹریشن ڈیسک قائم
حکام کے مطابق عارضی کیمپوں میں رجسٹریشن ڈیسک قائم کیے گئے ہیں۔ جو ڈی پورٹ کرنے سے پہلے تمام غیر قانونی افراد کا ڈیٹا حاصل کریں گے۔ جن میں نادرا، ایف آئی اے اور دیگر شامل ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ جن افراد کا ڈیٹا مکمل کیا جائے گا ان کو ڈی پورٹ کیا جائے گا۔ آپریشن کے لیے ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جو نگرانی کریں گی جبکہ پولیس اپنی حدود میں کارروائی کرے گی۔ غیرقانونی تارک وطن کا ڈیٹا جمع کیا گیا ہےاور افغان باشندوں کے اثاثوں کے حوالے سے بھی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے۔
مزید پڑھیں
ٹرانسپورٹ حکومت فراہم کرے گی
کیمپوں سے بارڈر تک غیر قانونی باشندوں کو لے جانے کے لیے بھی انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ ٹرانسپورٹ حکومت فراہم کرے گی۔ ذرائع نے بتایا کہ غیر ملکی باشندوں کو لے جانے کے لیے بڑی گاڑیاں بک کی گئی ہیں تاکہ سامان بھی لے جایا جا سکے۔ مزید بتایا کہ کیمپ سے تمام دستاویزات کو کلئیر کیا جائے گا تاکہ بارڈر پر آسانی ہو اور رش کا مسئلہ درپیش نہ ہو۔
افغان باشندے واپس جانے کو تیار نہیں
ڈیڈلائن میں چند گھنٹے رہتے ہی واپسی میں مزید تیری آئی ہے لیکن اکثر افغان باشندے جو دستاویز کے بغیر رہ رہے ہیں اب بھی جانے کے لیے تیار نہیں۔ ان کا مؤقف ہے افغانستان میں حالات سازگار نہیں اور اکثر کی جان کو بھی طالبان حکومت سے خطرہ ہے۔
افغان فنکاروں کی درخواست ہائی کورٹ میں
خیبر پختونخوا میں مقیم افغان فنکاروں نے حکومتی فیصلے کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں رٹ دائر کی ہے۔ جس میں انھوں نے عدالت سے زبردستی واپسی سے روکنے کی درخواست کی ہے۔ فنکاروں کے مطابق افغانستان میں فن اور فنکاروں کی لیے کوئی جگہ نہیں۔ طالبان سے جان کا خطرہ ہے۔
؟واپس نہیں جاؤں گی
افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے بعد گل ناز اپنی بچیوں کے ساتھ پشاور آئی تھی وہ کہتی ہیں کہ ’وہاں ان کی بچیوں کو اسکول جانے کی اجازت نہیں، میں خود بھی اسکول میں پڑھاتی تھی اور بچیاں تعلیم حاصل کر رہی تھیں لیکن طالبان اب اجازت نہیں دے رہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ واپس جانا نہیں چاہتیں۔ میری اپیل ہے کہ ہمارے ساتھ ظلم نہ کیا جائے۔ ہمیں یہاں رہنے کی اجازت دی جائے۔
غیر قانونی افغان جرائم میں ملوث ہیں
سرکاری حکام کے مطابق پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغان باشندے مختلف جرائم میں ملوث ہیں۔ رہزنی سے لے کر قتل تک کی وارداتوں اور دہشت گردی میں افغان ملوث ہیں جو اکثر جرائم کے بعد افغانستان بھاگ جاتے ہیں۔