اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو پر اب ان کے ساتھی بھی اعتماد کرنے سے گریزاں نظر آ رہے ہیں، غزہ میں حماس کے ساتھ جنگ کے معاملے پر اسرائیلی پارلیمنٹ بھی تقسیم ہوگئی ہے۔
7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے اپنے ایکس پر پیغام میں کہا تھا کہ کہ انہیں انٹیلی جنس سربراہان نے 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بارے میں کبھی مطلع نہیں کیا تھا، انٹیلی جنس سربراہان نے اندازہ لگایا تھا کہ حماس پریشان ہے اور اسرائیل کے ساتھ تصفیے کے لیے تیار ہے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے اس بیان پر اسرائیل بھر میں طوفان کھڑا ہوگیا۔ اسرائیلی پارلیمنٹیرنز نے نیتن یاہو کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، ان پر اسرائیل میں غم و غصہ اس قدر بڑھ گیا کہ اب انہوں نے اپنے سابقہ ایکس پیغام ڈیلیٹ کر کے سیکیوررٹی اداروں سے معافی بھی مانگی ہے کہ ’میں ہی غلط تھا۔‘
عالمی ماہرین کے مطابق اس واقعہ نے اسرائیل کی سیاسی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک وسیع خلیج کی تصدیق کردی ہے۔
برطانیہ کے شاہی ادارہ برائے بین الاقوامی تعلقات چیتم ہاؤس میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ پروگرام کے ایسوسی ایٹ فیلو یوسی میکل برگ نے کہا ہے کہ غزہ میں ایک بہت مشکل فوجی مہم ہے اور اسرائیل کی حکومت میں ایک بھی ایسا شخص نہیں ہے جو نیتن یاہو پر بھروسہ کرتا ہو، یہی اس کابینہ کا بنیادی مسئلہ ہے۔‘
اسرائیل کے وزیر دفاع بینی گانٹز نے نیتن یاہو سے مطالبہ کیا کہ وہ فوج اور اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسی پر الزامات لگانے پر اپنے عہدے سے استعفی دیں۔
اسرائیلی پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے رکن ایویگدور لیبرمین نے کہا کہ کہ نیتن یاہو ملکی سیکورٹی میں دلچسپی نہیں رکھتے، وہ یرغمالیوں میں دلچسپی نہیں رکھتے، وہ صرف سیاست میں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے اعلیٰ ترجمان ڈینیئل ہاگری نے نیتن یاہو کے الزامات پر سوال کے جواب میں اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ ’ہم حالت جنگ میں ہیں، جنگ ختم ہونے کے بعد مجھ سمیت بہت ساروں کو مشکل سوالات کے جواب دینے ہوں گے۔‘
اسرائیل کی وزارت خارجہ کے سابق ڈائریکٹر ایلون لین نے کہا ہے کہ ’یہ صرف اس برف کے تودے کا سرا ہے کہ تنازع ختم ہونے کے بعد اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کی کیا پوزیشن ہو گی، وہ اپنے اوپر لگے الزامات کا جواب دینے کی تیاری کر رہی ہے۔‘
دوسری طرف نیتن یاہو کو پہلے ہی ملک گیر احتجاج کا سامنا تھا کہ ان کی حکومت نے ملک کی عدالت عظمی کے اختیارات کم کیے ہیں، اسرائیل بھر میں عوام نیتن یاہو کی حکومت کے اقدامات کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کر رہے تھے، نیتن یاہو کے مخالفین نے عدلیہ کے اختیارات کم کرنے کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
عدالتی اصلاحات کے مخالفین میں فوجی ریزروسٹ بھی شامل تھے جنہوں نے رضاکارانہ ڈیوٹی کے لیے رپورٹ کرنے سے انکار کرنے کی دھمکی دی تھی۔ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ مظاہروں کی شدت اتنی تھی کہ اس نے فوج کی تیاری اور صلاحیت کو متاثر کیا۔
عالمی ماہرین کے مطابق نیتن یاہو کی حکومت 7 اکتوبر سے پہلے ہی عوام کا اعتماد کھو چکی تھی اور اس کے بعد بھی اس نے اپنی عوامی حمایت کو خاص طور پر نہیں بڑھایا۔
رائے عامہ کے ایک جائزے کے مطابق صرف 20 فیصد اسرائیلی عوام نے نیتن یاہو کی حکومت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق نیتن یاہو کی کابینہ بھی تقسیم ہو سکتی ہے لیکن وہ سینیئر فوجی افسران کو ساتھ ملا کر اپنی حکومت مضبوط کر سکتے ہیں جیسا کہ انہوں نے ماضی میں کیا ہے۔