وی ایکسکلوسیو: افغان باشندوں کی شکایت پر 2 ایس ایچ او معطل، بدسلوکی پر سخت ایکشن ہوگا: نگراں وزیر داخلہ

منگل 31 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نگراں وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ غیر قانونی افغان باشندوں کی واپسی کی ڈیڈ لائن میں کوئی توسیع نہیں ہوگی تاہم افغان باشندوں کے ساتھ بدسلوکی پر متعلقہ حکام کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔

وی نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں وزیر داخلہ نے بتایا کہ کوئٹہ میں افغان باشندوں سے پیسے لینے کے الزام میں 2 ایس ایچ اوز معطل کیے جاچکے ہیں۔

افغان باشندوں خصوصاً بچوں اور خواتین سے ناروا سلوک سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے وزیراعظم صاحب کی بہت واضح ہدایات ہیں کہ کہیں پر بھی کسی افغان باشندے خاص طور پر خواتین اور بچوں کے ساتھ بدسلوکی ہوئی یا ہراسمنٹ کی کوئی شکایت آئی تو اس ضلعے کے ایس پی اور اعلی حکام کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا‘۔

واپسی کی ڈیڈ لائن میں توسیع نہیں ہوگی

نگراں وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ افغان باشندوں کی واپسی کی ڈیڈ لائن میں توسیع نہیں ہوگی۔ ’ہم نے رضاکارانہ واپسی کے لیے یکم نومبر کی تاریخ رکھی ہے اور 2 نومبر سے اس حوالے سے ایکشن شروع کردیا جائے گا، یعنی اس وقت جو بھی غیر قانونی فرد یہاں رہا تو ہم انہیں پکڑیں گے، انہیں ہولڈنگ سینٹر میں رکھیں گے، ان کے بائیومیٹرک کریں گے اور ان کو وہاں اپنی بساط کے مطابق خوراک اور صحت کی سہولیات دیں گے، اور پھر اس کے بعد ہم ان کو ڈی پورٹ کردیں گے۔ چاہے وہ ایران سے ہوں یا افغانستان سے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک غلط فہمی ہے کہ یہ آپریشن صرف افغان شہریوں کے خلاف ہے ایسا نہیں ہے تاہم یہ ضرور ہے کہ غیر قانونی شہریوں کی اکثریت کا تعلق افغانستان سے ہے تو میں برازیل کا نام تو نہیں لے سکتا۔

سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ہم اپنے مسائل خود حل کرنا چاہتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ہاں سرحد پار سے دہشتگردی نہ ہو، اسمگلنگ نہ ہو، جرائم کم ہوں، اس کے لیے ہم پہلے غیر قانونی افراد کو باہر نکالیں گے اور پھر ہم اپنی سرحدوں کو محفوظ بنائیں گے۔ دنیا کا کونسا ملک ہے جو غیر قانونی شہریوں کے لیے محفوظ ہوتا ہے؟

سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ جو افغان شہری پاکستان کی ترقی میں حصہ لینا چاہتے ہیں وہ قانونی طریقے سے آئیں ان کی بھرپور مدد کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ جو افغان شہری پاکستان واپس آنا چاہتے ہیں وہ ویزا لیں پھر چاہے وزٹ کریں یا کاروبار کریں یا خاندان وغیرہ سے ملیں، ان پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہوگی۔

ریاست ظالم نہیں، انسانی بنیادوں پر درخواست آئی تو غور کریں گے

سرفراز بگٹی سے وی نیوز نے سوال پوچھا کہ اگر کسی نے بیماری یا کسی دوسری انسانی بنیادوں پر بیدخلی روکنے کی درخواست کی تو اس کی واپسی مؤخر کی جاسکتی ہے؟ جس پر نگراں وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ابھی تک کسی نے انسانی بنیادوں پر رابطہ نہیں کیا، لیکن جو بھی ہم سے انسانی بنیادوں پر رابطہ کرے گا ہم اس کا جائزہ لیں گے۔ ہم سخت ریاست بننا چاہتے ہیں مگر ظالم ریاست نہیں، اور ہم صرف اپنا گھر ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان ایک الگ ملک ہے جس کا اپنا بارڈر اور اپنا نظام ہے۔

برطانوی ہائی کمشنر کو بتایا کہ ہم بھی امیگریشن پر حساس ہیں

نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ان کے پاس برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ آئی تھیں۔ ’میں نے ان سے پوچھا کہ افغان شہریوں کو اپنے ملک امیگریشن کے لیے لے جانے میں آپ کو کتنا وقت لگا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ 2 سال۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو ان کا کہنا تھا کہ امیگریشن کے معاملات میں وقت لگتا ہے۔ تو میں نے ان سے کہا کہ آپ (برطانوی ہائی کمشنر) اپنے ملک میں امیگریشن کے حوالے سے کتنے حساس ہیں، اب اگر ہم اپنی امیگریشن کے حوالے سے حساس ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو اس پر حیرانی کا اظہار کیوں ہوتا ہے؟

انہوں نے کہا کہ آج ڈان اخبار میں تصویر شائع ہوئی ہے کہ برطانیہ میں مظاہرہ کرنے والی خاتون کو 2 پولیس کے مسٹنڈے اٹھا کر لے جا رہے ہیں مگر وہاں کی پولیس کو کچھ نہیں کہا جاتا حالانکہ وہ منظم ریاست ہونے کے ساتھ ساتھ سخت ریاست بھی ہے۔

نگراں وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ابھی ہم ایک سافٹ ریاست ہیں جس کا جی کرتا ہے منہ اٹھا کر آجاتا ہے۔

ایک سوال پر انہوں نے تسلیم کیا کہ شہریوں کے حقوق اور ریاستی سختیوں میں کوئی توازن بھی ہونا چاہیے۔ ’میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ جہاں شہریوں کے حوالے سے ریاست کی کچھ ذمہ داریاں ہیں وہیں شہریوں کی بھی ریاست کی طرف کچھ ذمہ داریاں ہیں اور ان دونوں میں توازن ضروری ہے۔ ہمارے ہاں آرٹیکل 6 کا سب کو پتا ہے جو سنگین غداری سے متعلق ہے مگر آرٹیکل 5 کا کسی کو نہیں پتا جو ریاست کی طرف غیر مشروط وفاداری سے متعلق ہے۔

نوجوان نسل بدنظمی سے بدتمیری کی طرف چلی گئی ہے

نگراں وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ہماری نوجوان نسل کی تربیت میں کمی رہ گئی ہے۔ ’نوجوان نسل جس میں میرے اپنے اہلِ خانہ ہیں، بھتیجے، بھانجے اور رشتہ دار ہیں، ان کی ہم نے کیا تربیت کی ہے؟ صرف سیاسی اختلافات کی وجہ سے گالم گلوچ اور مار دھاڑ پر لگ جاتے ہیں۔ آپ کے نظریاتی اختلاف ہوسکتے ہیں مگر ہم اب بدنظمی سے بدتمیزی کے طرف چلے گئے ہیں اور اب ہمیں انہیں اگلے 50، 60 سالوں تک بھگتنا ہے‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp