ایک ایسے وقت میں جب پاکستان شدید معاشی دباؤ کا شکار ہے، ڈالر کی غیر مستحکم قدر ہر گزرتے روز کے ساتھ قرضوں کا حجم بڑھانے کی سبب بن رہی ہے، اس صورتحال میں اگر بعض سرکاری محکموں کی ادائیگیاں تعطل کا شکار ہوں تو شائد اچھنبے کی بات نہ ہو مگر نجی اخبار کے مطابق ادائیگیوں میں تعطل کا خدشہ حقیقت میں بدل چکا ہے۔
اس حوالے سے ’دی نیوز‘ میں شائع خبر میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ’ وزارت خزانہ نے وفاقی وزارتوں اور ان سے منسلک محکموں میں تنخواہوں کی ادائیگی روکنے کا حکم دیا ہے‘۔
خبر نگار کے مطابق ’اکاؤنٹینٹ جنرل پاکستان ریونیوز (اے جی پی آر) کو جاری کی گئی ہدایات میں وفاقی وزارتوں، ڈویژنوں اور منسلک محکموں کے بل کی ادائیگیاں بھی روکنے کا کہا گیا ہے‘۔
خبر کے مطابق ’سرکاری عہدے داروں نے بتایا کہ ملک میں معاشی بحران کے سبب فنڈز جاری کرنے میں دشواریاں حائل ہیں۔اس حوالے سے وزیر خزانہ سے ہونے والی گفتگو کا حوالہ بھی دیا گیا جس میں پہلے تو انہوں نے اطلاعات کو غلط قرار دیا تاہم بعد میں تصدیق کر دی‘۔
خبر میں بعض سرکاری عہدیداروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ’وہ ادائیگی کے لیے اے جی پی آر گئے تھے تاہم انہیں بتایا گیا کہ وزارت خزانہ نے بلوں اور تنخواہوں کی ادائیگیاں روکنے کی ہدایت دی ہے‘۔
ظاہر ہے کہ خبر اس معاشی کمزروی کی نشاندہی کر رہی ہے جس کا سامنا موجودہ حکومت کو پہلے ہی دن سے کرنا پڑ رہا ہے، ایسے میں وزراتِ خزانہ نے غالباً اس تاثر کو دور کرنے کے لیے ایک وضاحتی پریس ریلیز جاری کی جس میں گردش کرنے والی ان افواہوں کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا گیا ہے کہ حکومت نے تنخواہ، پنشن وغیرہ کی ادائیگی روکنے کی ہدایت کی ہے۔
فنانس ڈویژن کی پریس ریلیز کے مطابق ایسی خبریں سراسر غلط ہیں کیونکہ فنانس ڈویژن جو کہ متعلقہ وفاقی وزارت ہے، نے ایسی کوئی ہدایات نہیں دی ہیں۔
پریس ریلیز کے مطابق اکاؤنٹینٹ جنرل پاکستان ریونیوز (اے جی پی آر) نے تصدیق کی ہے کہ تنخواہ اور پنشن پر کارروائی ہو چکی ہے اور وقت پر ادا کر دی جائے گی۔ مزید یہ کہ دیگر ادائیگیوں پر معمول کے مطابق کارروائی کی جا رہی ہے۔
فنانس ڈویژن کی اس وضاحت کے بعد بظاہر جس خبر سے ادائیگیوں میں تعطل کی فضا بنی تھی وہ زائل ہو جانی چاہیے تھے مگر ایسے وقت میں جب کہ فنانس ڈویژن مذکورہ خبروں کو بے بنیاد قرار دے رہا ہے۔ دی نیوز کے متعلقہ خبر نگار مہتاب حیدر نے اپنی پے در پے دو ٹوئٹس میں اپنی خبر کو درست قرار دیتے ہوئے اس کی صداقت پر ڈٹے رہنے کا اعلان کیا ہے۔
معروف صحافی مہتاب حیدر نے وزراتِ خزانہ کی پریس ریلیز پر مشتمل ٹوئٹ کے جواب میں لکھا ہے کہ ’میں نے وزراتِ خزانہ، وفاقی سیکرٹری خزانہ اور ایڈیشنل فنانس سیکرٹری بجٹ سے رابطہ کیا تاکہ مختلف وزارتوں سے وابستہ اہلکاروں کی جانب سے موصول ہونے والی تقریباً ایک درجن شکایات کی تصدیق کی جا سکے۔ لہٰذا میں اپنی خبر میں درج ہر ایک لفظ کے ساتھ کھڑا ہوں‘۔ مہتاب حیدر نے یہ بھی استفسار کیا کہ ’آخر وزارتِ خزانہ نے ترجمان کیوں نہیں تعینات کیا؟‘
I contacted with Min for Fin, Federal Fin Sec and Additional Sec Fin Budget to get confirmation on around one dozen complaints received from officials affiliated with different ministries. So I stand by each and every word written in my story. Why MoF did not appoint spokesman? https://t.co/siFOxvperY
— Mehtab Haider (@haider_mehtab) February 25, 2023
مہتاب حیدر نے اس سلسلے سے منسلک اپنی دوسری ٹوئٹ میں لکھا کہ’ دوسری بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ بنیادی طور پر حکومت اور اسٹیٹ بینک کی طرف سے تین میں سے دو نیلامیوں کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے جو بنیادی طور پر ڈسکاؤنٹ ریٹ میں اضافے کے امکان کی وجہ سے ناکام رہا۔ لہٰذا بلوں کی ادائیگی کی منظوری میں تاخیر پر اب بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔‘
اب جب کہ ادائیگیوں میں تعطل کی خبر دینے والا خبر نگار اپنی بات پر قائم ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ متعلقہ وزرات نے اس خبر سے پیدا ہونے والے تاثر کو محض ایک پریس ریلیز سے دور کرنے کی کوشش کیوں کی، اگر اس حوالے سے اعداد شمار جاری کر دیے جاتے تو ممکنہ طور پر وزراتِ خزانہ کی بات میں وزن پیدا ہو جاتا۔