پاکستان نے مشکل معاشی حالات اور ڈیفالٹ کے خطرے کو ختم کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے قرض لے رکھا ہے۔ اس قرض کی واپسی کے لیے حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کیا ہوا ہے جس میں چند کڑی شرائط بھی رکھی گئی تھیں، آئی ایم ایف کا جائزہ مشن کل پاکستان کے دورے پر آ رہا ہے، اس دوران آئی ایم ایف وفد وفاقی و صوبائی حکومتوں، ایف بی آر، اسٹیٹ بینک، وزارت خزانہ اور ریگولیٹری اداروں کے ساتھ مذاکرات کرے گا اور رپورٹ جاری کرے گا جس کی روشنی میں پاکستان کو مزید 70 کروڑ ڈالر قرض کی قسط کی ادائیگی کا فیصلہ کیا جائے گا۔
پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں اور بیشتر شرائط پوری کر لی ہیں، حکومت نے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے جس سے توانائی کے شعبہ کا گردشی قرضہ کم ہو گیا ہے، پاکستان نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر بھی آئی ایم ایف کے مطالبہ کے مطابق کرلیے ہیں۔ آئی ایم ایف نے جولائی سے ستمبر تک کے گردشی قرضہ میں 292 ارب روپے تک کے اضافہ کی اجازت دی تھی تاہم اس عرصے میں توانائی کے شعبہ کا گردشی قرضہ 227 ارب روپے بڑھا ہے۔
مزید پڑھیں
حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے بجلی اور گیس کے نرخوں میں بھی اضافہ کیا ہے، بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 7 روپے سے زائد کا اضافہ کیا گیا جبکہ آج سے گیس کی قیمتوں میں بھی 180 فیصد تک کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو ٹیکس وصولیاں بڑھانے کی ہدایت کی تھی جس پر عمل کرتے ہوئے ایف بی آر نے ٹیکس وصولیوں کے 1978 ارب روپے کے مقرر کیے گئے ہدف سے 63 ارب روپے زائد کی اضافی ٹیکس وصولی کی ہے۔ جولائی سے ستمبر تک ایف بی ار نے کوئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم جاری نہیں کی اور کسی کو کوئی ٹیکس چھوٹ نہیں دی۔
حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کے باعث پٹرولیم مصنوعات سے وصول ہونے والے ٹیکس میں کمی نہیں کی، پٹرول پر 60 روپے لیوی اب بھی وصول کیا جا رہا ہے۔
وزارت خزانہ کے ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر من و عن عمل کیا ہے، آئی ایم ایف وفد کے ساتھ آئندہ 2 ہفتے تک مذاکرات جاری رہیں گے جو متوقع طور پر کامیاب ہوں گے، ان مذاکرات کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو قرض کی اگلی قسط کی ادائیگی کا گرین سگنل مل جائے گا۔