منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کل (3 نومبر) کو بھارت میں اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور اقدامات کا جائزہ لے گا۔ بھارت کو منشیات کی تجارت اور غیرقانونی ہتھیاروں کے پھیلاؤ جیسے الزامات کا بھی سامنا ہے۔ 2010ء کے بعد پہلی بار ایف اے ٹی ایف بھارت کا جائزہ لے گا، اس حوالے سے معاشی ماہرین کا کہنا ہے بھارت کے گرے لسٹ میں شامل کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔
اسی حوالے سے قائدِ اعظم یونیورسٹی میں ’فیٹف کے جنوبی ایشیا پر اثرات 2023‘ کے عنوان سے سمینار منعقد کیا گیا، جس کا مقصد بھارت کی معیشت اور خطے میں اس کے اثرات پر ایک جامع بحث اور جائزہ فراہم کرنا تھا۔
واضح رہے کہ رواں برس فروری میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) کی جانب سے بھارت میں ٹیرر فناسنگ اور منی لانڈرنگ روکنے کے حوالے سے پلان تیار کر لیا گیا تھا، جس کے بعد بھارت کے اقدامات کے آن سائٹ جائزے کے لیے نومبر کا دورانیہ منتخب کیا گیا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل فیٹف کی جانب سے بھارت کا جون 2010ء میں جائزہ لیا گیا تھا۔ فیٹف پلان کے مطابق فیٹف 2019ء سے اب تک 2 بار اے ایم ایل، سی ایف ٹی قوانین سے متعلق بھارت کی جانچ مؤخر کرچکا ہے۔ اس کی ایک وجہ کورونا وبا بھی تھی جس کے باعث یہ جائزہ مؤخر ہوتا آیا۔
اس سے قبل پاکستان بھی فیٹف کی جانب سے گرے لسٹ کا سامنا کر چکا ہے مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ فیٹف اب جن ممالک کے اقدامات کا جائزہ لے گا اس فہرست میں پاکستان کا نام شامل نہیں ہے۔
کیا واقعی بھارت گرے لسٹ میں جا سکتا ہے؟
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے مشیر خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے کہا کہ بھارت کا گرے لسٹ میں جانا یقینی ہے کیونکہ بھارت کو فیٹیف کی جانب سے تقریباً 350 سوالات کا سامنا ہے جو کہ کوئی معمولی بات نہیں، اس حساب سے بھارت کے گرے لسٹ میں جانے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
مزید بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بھارت ریاستی دہشت گردی میں ملوث ہے کیونکہ دنیا میں جوئے کا سب سے بڑا اڈا بھارت کا شہر ممبئی میں ہے۔
انہوں نے کہا، ’اب تو کینیڈا بھی کہہ چکا ہے کی بھارت ریاستی دہشت گردی میں ملوث ہے، ہم کلبھوشن کی بات کرتے تھے، بھارت نے ریاستی دہشت گردی میں بہت نام کمایا ہے، اب بھارت کو ان سب سوالات کے جواب دینا پڑیں گے کیونکہ ایف اے ٹی ایف 3 نومبر سے بھارت کا جائزہ شروع کر رہا ہے۔
مشیر برائے یوتھ افئیرز کامران سعید عثمانی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے فیٹف کی جانب سے تقریباً 27 سے 29 سوال پوچھے گئے تھے جس میں سے پاکستان 3 سے 4 سوال کے جواب نہیں دے پایا تھا، جس وجہ سے پاکستان گرے لسٹ میں رہا، جبکہ بھارت کے تو تقریباً 350 کے قریب سوال ہیں اور وہ تما معاشی بے ضابطگیوں کے حوالے سے ہیں جس پر اسے جوابات دینے ہیں، بھارت میں رئیل اسٹیٹ انڈسٹری، جیولری (گولڈ)، کرپٹو کرنسی، بالی ووڈ، کیسینوز کے حوالے سے بے ضابطگیاں پائی جاتی ہیں، اس بنا پر گرے لسٹ میں تو بھارت کا جانا طے ہے۔
گرے یا بلیک لسٹ ہونے سے ملکی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ماہر معیشت خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ گرے لسٹ میں جانا کسی بھی ملک کے لیے بہت خطرناک ہوتا ہے کیونکہ اس ملک کی تجارت اور فنڈ انفلوز کم ہو جاتے ہیں، بینکنگ سسٹم بھی متاثر ہوتا ہے، اس کے علاوہ ملک میں سرمایہ کاری بھی کم ہو جاتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے یہ ایک اچھی خبر ہے کہ پاکستان وائٹ لسٹ میں ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کا مثبت پہلو دنیا کے سامنے آئے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ انڈیا کے گرے لسٹ میں جانے سے پاکستان کی آئی ٹی اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر وقار مسعود نے کا کہنا تھا کہ بھارت گرے لسٹ میں جاتا ہے تو وہاں کے تمام سرمایہ کار اپنے پیسے کا خیال ضرور کریں گے، وہ اس حوالے سے سوال بھی اٹھائیں گے اور بھارت میں مزید سرمایہ کاری سوچ سمجھ کر کریں گے جس سے بھارت کی معیشت بھی متاثر ہوگی جبکہ اس کا فائدہ پاکستان کو ہوگا۔
بھارت کے گرے لسٹ میں جانے کے حوالے سے قائداعظم یونیورسٹی کے اسٹنٹ پروفیسر باقر ملک نے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا 2030ء تک دنیا کی بڑی معاشی طاقت بن سکتا ہے لیکن بھارت کے گرے لسٹ میں جانے سے وہاں پر ایپل اور بڑی دیگر کمپنیاں یہ ضرور سوچنے پر مجبور ہوں گی کہ کہیں انہوں نے غلط جگہ پر سرمایہ کاری تو نہیں کی، یہ سب وہ باتیں ہیں جو بھارت کو عالمی منڈی میں متاثر کر سکتی ہیں۔