کیا حزب اللہ اسرائیل کے خلاف لڑائی میں براہ راست شامل ہوگی؟

جمعرات 2 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا حزب اللہ، اسرائیل کے خلاف جنگ میں براہ راست شامل ہوگی یا نہیں اس بات پر امریکن تجزیہ کار بھی منقسم ہیں، کیونکہ حزب اللہ ابھی تک اسرائیل لبنان بارڈر پر ہی حملے کر رہی ہے اور براہ راست اسرائیل حماس جنگ میں شامل نہیں ہوئی ہے۔ لیکن اگر حزب اللہ اس جنگ میں شامل ہوتی ہے تو حماس کے مقابلے میں اسرائیل کے لیے ممکنہ طور پر زیادہ خطرہ ثابت ہوگی، اور ممکنہ طور پر لبنان کو بھی اس جنگ میں گھسیٹ لے گی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ اس بات کا کئی دفعہ اظہار کر چکے ہیں کہ وہ اسرائیل پر حملہ کرنے کے لیے بے تاب ہیں، اور توقع کی جا رہی ہے کہ جمعہ کے روز حزب اللہ کے رہنما اس بات کا اعلان بھی کردیں، جس کے بعد لبنان اور پورے مشرق وسطیٰ میں تشویش پھیل چکی ہے، اور کچھ لوگ پریشان بھی ہیں۔

بعض حوالوں سے تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ حزب اللہ قدرے پریشانی کا شکار ہے کیونکہ اس نے خود کو اسرائیل کے خلاف مزاحمتی تحریک کی اعلیٰ قیادت کے طور پر کھڑا کیا ہے۔ تو یہ غزہ میں اسرائیل اور حماس کے تنازعے کے دوران سائیڈ پر کیسے رہ سکتے ہیں۔

یونیورسٹی آف ٹیکساس کے بینجمن ایلیسن نے حماس کے برعکس حزب اللہ کے پاس موجود ہتھیاروں، راکٹوں اور ڈرونز کو زبردست قرار دینے کی طرف اشارہ کیا ہے، انہوں نے کہا کہ حزب اللہ کے مختلف اسمارٹ ہتھیار اسرائیل کے بنیادی ڈھانچے کے لیے سنگین خطرہ ہیں اور اسرائیل کو قبل از وقت جنگ شروع کرنے پر بھی آمادہ کر سکتے ہیں۔

دوسری جانب لبنان کے وزیر خارجہ عبداللہ بو حبیب نے ایک بیان میں واضح کیے بغیر کہا کہ نہ تو لبنان اور نہ ہی حزب اللہ اسرائیل کے ساتھ جنگ ​​چاہتے ہیں کیونکہ یہ لبنان کے لیے تباہی کا باعث بنے گا، جو پہلے سے ہی اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔

لبنانی تجزیہ کار دانیہ کولیلت خطیب نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ اس وقت اسرائیلی دفاعی فورسز کے ساتھ مل کر ہنگامی منصوبہ بندی کر رہی ہے اور بارڈر پر راکٹ حملوں کے جواب میں راکٹ حملے فائر کرتے ہوئے سرحدی راکٹ حملوں کی ٹمپو کو کنٹرول کر رہی ہے۔

بیروت میں ریسرچ سینٹر فار کوآپریشن اینڈ پیس بلڈنگ کے صدر خطیب نے کہا کہ حزب اللہ ممکنہ طور پر صرف ایک یا دو صورتوں میں اسرائیل کے ساتھ جنگ ​​میں حصہ لے گی۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اگر اسرائیل حماس کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اگر حماس کا خاتمہ ہو جاتا ہے تو حزب اللہ ان کا اگلا مقابلہ ہوگا۔ خطیب نے کہا کہ دوسری صورت یہ ہوگی اگر اسرائیل لبنان پر بمباری کرے۔

’اس وقت حزب اللہ جو بھی کر رہی ہے اس کا مقصد اسرائیلی ڈیفینس فورسز کو شمال میں مصروف رکھنا ہے۔ اسرائیلی انٹیلی جنس کو الجھائے رکھنا اور اسرائیلیوں کو خوفزدہ رکھنا ہی ان کا مقصد ہے۔‘

بیروت کی امریکن یونیورسٹی کے رامی خوری نے واشنگٹن میں قائم عرب سینٹر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ اسرائیل میں اس کی مزاحمت اور انحراف کی وجہ سے قابل احترام ہے۔ وہ توقع کرتا ہے کہ ایران کی پریمیئر پراکسی اسرائیل کی شمالی سرحد پر دباؤ برقرار رکھے گی۔ حزب اللہ اسرائیلیوں کو ہراساں کرتی رہے گی۔ وہ ہر وقت اسرائیلی ردعمل، اسرائیلی جذبات کی جانچ کر رہے ہیں کہ ان کے فوجی کتنے متحرک ہیں یا وہ خوفزدہ ہیں۔

رامی خوری نے کہا کہ لہذا، وہ یہاں ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر حملہ کرتے ہیں، ڈرون بھیج کر چھوٹے چھوٹے حملے کرتے ہیں۔ اسی طرح حزب اللہ اسرائیلیوں پر ایک ہزار راکٹوں سے حملہ کرنے کے بجائے ان میں نفسیاتی دہشت اور خوف پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ رامی خوری کے خیال میں حزب اللہ کے میدان میں آنے کا امکان نہیں ہے۔ انہیں نہیں لگتا کہ وہ ایک مکمل جنگ میں داخل ہونے والے ہیں، لیکن اگر جنگ خاصی بڑھ جاتی ہے تو وہ ممکنہ طور پر اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔

بیروت میں کارنیگی مڈل ایسٹ سنٹر کے ڈائریکٹر مہا یحییٰ نے نیویارک ٹائمز اخبار کو بتایا کہ ایران ممکنہ طور پر اس وقت حزب اللہ کی قوت کو ضائع نہیں کرے گا کیونکہ بحیرہ روم میں تعینات 2 امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کے ساتھ داؤ پر لگا ہوا ہے، جو بحیرۂ روم پر حملہ کر سکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp