عام انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان سپریم کورٹ سے ہوگا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی

جمعرات 2 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ملک میں 90 روز میں انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کے استفسار پرالیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے 11 فروری کی تاریخ مقرر کردی ہے۔ حلقہ بندیاں مکمل ہونے کے بعد 29 جنوری تک انتخابی مہم کے لیے 54 روز مکمل ہوں گے۔

ملک میں 90 روز میں انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی، جس میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بھی شامل تھے۔

الیکشن کمیشن نے انتخابات کے شیڈول سے متعلق سپریم کورٹ کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ 29 جنوری کو حلقہ بندیوں سمیت تمام انتظامات مکمل ہوجائیں گے، وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی کے مطابق 11 فروی کو ملک بھر میں انتخابات ہوں گے، 5 دسمبر کو حتمی فہرستیں مکمل ہو جائیں گی، 5 دسمبر سے 54 دن گنیں تو 29 جنوری بنتی ہے.

وکیل الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ انتخابات میں عوام کی آسانی کیلئے اتوار ڈھونڈ رہے تھے، 4 فروی کو پہلا جبکہ دوسرا اتوار 11 فروری کو ہے۔ ’ حلقہ بندیوں کے بعد انتخابات کرائیں گے، ہم نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا کہ 11 فروری والے اتوار کو الیکشن کروائے جائیں۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے تو صدر سے مشاورت نہ کر کے آئین کو دوبارہ تحریر کر لیا ہے، آئینی خلاف ورزی پر جس کے خلاف کارروائی کرنا ہے اس کے فورمز موجود ہیں، عدالتی استفسار پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ الیکشن کمیشن صدر مملکت کو ’آن بورڈ‘ لینے کا پابند نہیں ہے۔

الیکشن کی تاریخ دینے سے قبل صدرمملکت سے مشاورت نہ کرنے پرالیکشن کمیشن پر اظہاربرہمی کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صدر بھی پاکستانی ہیں اور الیکشن کمیشن بھی پاکستانی ہے، الیکشن کمیشن صدر سے مشاورت نہ کرنے پر کیوں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے پوچھا کہ انتخابات کی تاریخ دینا صدر کا کام ہے، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ یہ ہمارا کام ہے، اس موقع پر چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی سے کہا کہ ابھی جائیں اور چیف الیکشن کمشنر سے پوچھیں آیا وہ صدر مملکت سے مشاورت کے لیے تیار ہیں اور عدالت میں جواب دیں۔

وقفہ کے بعد سماعت شروع ہوئی توالیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے صدرمملکت سے مشاورت کا فیصلہ کر لیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر وہ آپ کو نہ بھی بلائیں آپ ان کا دروازہ کھٹکھٹا دیں، سپریم کورٹ بغیر کسی بحث کے انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے چیف الیکشن کمشنر کوآج ہی صدر مملکت سے مشاورت کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل بھی اس مشاورت میں شریک ہوں گے۔

آج کی سماعت کا حکمنامہ

آج کی سماعت کے حکم نامے کے مطابق الیکشن کمیشن نے کہا حلقہ بںدیوں کا عمل 30 نومبر کو مکمل ہو گا جس کے بعد الیکشن شیڈول جاری ہو سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق تمام مشق 29 جنوری بروز پیر کو مکمل ہو گی، الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل میں زیادہ عوامی شرکت مدنظر رکھتے ہوئے انتخابات کی تاریخ اتوار کے روز تجویز دی ہے۔

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کو ہدایت دیتے ہوئے کہا آج ہی صدر سے رابطہ کریں، فون اٹھائیں اور صدر کے ملٹری سیکرٹری کو ملیں، اٹارنی جنرل مشاورتی عمل میں آن بورڈ رہیں، اٹارنی جنرل الیکشن کمیشن اور صدر پاکستان کی چائے پر ملاقات کرانے کا اہتمام کرے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے کہا کہ عام انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان سپریم کورٹ سے ہوگا، الیکشن کمیشن صدر سے مشاورت کر کے کل جمعہ کو سپیرم کورٹ کو بتائے، الیکشن کمیشن اور صدر مشاورت کر کے دستاویزات عدالت میں پیش کریں۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ توقع ہے کہ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن مشاورت کے بعد آج ہی تاریخ کا معاملہ حل ہوجائے گا، دستاویز پر سب کے دستخط ہوں گے تا کہ کوئی مکر نہ سکے، حتمی تاریخ کے بعد اس میں توسیع کی درخواست نہیں سنی جائے گی۔

آج کی سماعت کا آغاز

سماعت کے آغاز پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے اس کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کی ہے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کسی فریق کو اعتراض تو نہیں اگر عدالت فاروق نائیک صاحب کو اس کیس میں سنے، پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم فاروق ایچ نائیک صاحب کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

عدالت نے پیپلز پارٹی کو  90 روز میں انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس میں فریق بننے کی اجازت دے دی، جس کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی استدعا کو صرف ایک نکتہ تک محدود رکھوں گا، استدعا ہے الیکشن ٹائم کے مطابق وقت پر ہونے چاہییں، انتخابات 90 روز میں کروائے جائیں۔

جس پر چیف جسٹس بولے؛ آپ کی 90 دنوں میں انتخابات کی استدعا تو اب غیر موثر ہو چکی، علی ظفر نے کہا کہ ہم بنیادی انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، چیف جسٹس بولے؛ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوام کی رائے جاننے سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔

تحریک انصاف کا موقف

چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے دریافت کیا کہ اب آپ صرف انتخابات چاہتے ہیں، جس پر علی ظفر بولے؛ جی ہم انتخابات چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اس کی کوئی مخالفت کرے گا، میرا نہیں خیال کوئی مخالفت کرے گا، انہوں نے اس ضمن میں اٹارنی جنرل سے بھی پوچھا، جنہوں نے انکار میں جواب دیا۔

تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 58اور 224 پڑھا جا سکتا ہے، انتخابات نہیں ہوں گے تو پارلیمنٹ ہوگی نہ ہی قانون سازی ممکن ہوسکے گی، انتخابات کی تاریخ دینا اور شیڈول دینا دو الگ چیزیں ہیں، الیکشن کی تاریخ دینے کا معاملہ آئین میں درج ہے۔

وکیل علی ظفر کا موقف تھا کہ صدر اسمبلی تحلیل کرے تو 90دن کے اندر کی الیکشن تاریخ دے گا، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا یہ تاریخ دینے کیلئے صدر کو وزیر اعظم سے مشورہ لینا ضروری ہے، جس پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ضروری نہیں ہے صدر کا اپنا آئینی فریضہ ہے وہ تاریخ دے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے دریافت کیا کہ کیا صدر نے الیکشن  کی تاریخ دی ہے، علی ظفر بولے؛ میری رائے میں صدر نے تاریخ دیدی ہے مگر الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ یہ صدر کا اختیار نہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ صدر نے تاریخ دینے کا حکم دینا ہے، حکومت نے اسے نوٹیفائی کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا وہ خط دیکھ سکتے ہیں جس میں صدر نے تاریخ دی، وکیل علی ظفر نے صدر کا خط پڑھ کر سنا دیا۔ چیف جسٹس بولے؛ اسمبلی 9اگست کو تحلیل ہوئی اس پر تو کسی کا اعتراض نہیں، علی ظفر بولے؛ جی کسی کا اعتراض نہیں، وزارت قانون نے رائے دی کہ صدر مملکت تاریخ نہیں دے سکتے، 90 دنوں کا شمار کیا جائے تو 7 نومبر کو انتخابات ہونا ہیں۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے پوچھا کہ صدر مملکت کو الیکشن کمیشن کو خط لکھنے میں اتنا وقت کیوں لگا، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا صدر مملکت نے سپریم کورٹ سے رائے لینے کے لیے ہم سے رجوع کیا، علی ظفر کی جانب سے نفی میں جواب آنے پر چیف جسٹس بولے؛ پھر آپ خط ہمارے سامنے ان کا خط کیوں پڑھ رہے ہیں، جس کا متن بھی کافی مبہم ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب صدر نے جب خود ایسا نہیں کیا تو وہ کسی اور کو یہ مشورہ کیسے دے سکتے ہیں،علی ظفر کیا آپ کہہ رہے ہیں صدر نے اپنا آئینی فریضہ ادا نہیں کہا، 9 اگست کو اسمبلی تحلیل ہوئی اور صدر نے ستمبر میں خط لکھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کی کمانڈ بڑی واضح ہے صدر نے تاریخ دینا تھی اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، چیف جسٹس بولے؛ اختلاف کرنے والے بھلے اختلاف کرتے رہیں، ہم اس معاملہ کا جوڈیشل نوٹس بھی لے سکتے ہیں،آخری دن جا کر خط نہیں لکھ سکتے۔

علی ظفر نے موقف اختیار کیا کہ میری نظر میں صدر نے الیکشن کی تاریخ تجویز کردی ہے، جس پر چیف جسٹس بولے؛ آپ ہم سے اب کیا چاہتے ہیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم صدر کو ہدایت جاری کریں کہ آپ تاریخ دیں، صدر کہتے ہیں فلاں سے رائے لی فلاں کا یہ کہنا ہے، کیا اب یہ عدالت صدر کے خلاف رٹ جاری کر سکتی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کے مطابق تاریخ دینا صدر کا اختیار ہے، پھر آپ بتائیں کہ کیا اس عدالت کو بھی تاریخ دینے کا اختیار ہے، اگر صدر نے بات نہ مانی تو ہم انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے، کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صدر مملکت نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 98 بہت واضح ہے اس پر اس عدالت کا کردار کہاں آتا ہے، جس دن قومی اسمبلی تحلیل ہوئی اسی دن صدرتاریخ دیتے تو کوئی بھی اعتراض نہ اٹھا سکتا تھا، چیف جسٹس نے مزید کہا کہ انتحابات کے انعقاد کے لیے پوری مشینری شامل ہوتی ہے، کیا سپریم کورٹ انتحابات کی تاریخ دے سکتی ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے کبھی کہا کہ صدر تاریخ دیں، جس پر علی ظفر بولے؛ الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتحابات کی تاریخ دینے کا اختیار ہمارا ہے، صدر مملکت کی تاریخ نہ دینے کے پہلو کو ایک طرف رکھ کر ہمیں سپریم کورٹ کو بھی دیکھنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کیا ہم صدر کے خلاف جا کر خود انتحابات کی تاریخ دے سکتے ہیں، آئین پاکستان نے ہمیں تاریخ دینے کا اختیار کہاں ہے، علی ظفر نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ ایک مرحلے میں مداخلت کر چکی ہے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ بولے؛ اس وقت سوال مختلف تھا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انتخابات کا انعقاد تو اچھی چیز ہے مسئلہ نہیں ہے، آپ کے لیڈر صدر کے بھی لیڈرہیں، صدر کو فون کر کے کیوں نہیں کہا گیا کہ انتخابات کی تاریخ دیں، جسٹس امین الدین نے کہا کہ آپ کی دلیل تو یہ ہے کہ صدر نے آئین سے انحراف کیا۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں حکومت ،الیکشن کمیشن اور صدر مملکت تینوں ذمہ دار ہیں، اب سوال یہ ہے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے، انتخابات تو وقت پر ہونے چاہییں۔

سابق اٹارنی جنرل انور منصور کا ’واک آف

روز میں انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس میں درخواست گزار منیر احمد کے وکیل کے طور پر سابق اٹارنی جنرل انور منصور پیش ہوئے تو انہوں نے جلد ہی روسٹرم چھوڑنے میں عافیت جانی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ انور منصور منیر احمد کے وکیل نہیں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا انور منصور صاحب آیا منیر احمد نے پیشہ ورانہ طور پر آپ کی خدمات حاصل کی ہیں یا نہیں، جس پر انور منصور نے جواب دیا کہ انہیں پیشہ ورانہ طور پر ہائر کیا گیا تھا، چیف جسٹس بولے؛ لیکن اس میں آپ کا وکالت نامہ نہیں ہے۔

انور منصور نے کہا کہ انہوں نے وکالت نامہ سائن نہیں کیا، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پھر آپ کس طرح سے ان کی وکالت کر سکتے ہیں۔ منیر احمد پر تو سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے سنجیدہ نوعیت کے الزامات عائد کیے ہیں۔

واضح رہے کہ کل فیض آباد دھرنا کیس میں سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے کہا تھا کہ ان کو بتایا گیا ہے کہ منیر احمد ایجنسیوں کا آدمی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر منیر احمد سمجھتا ہے کہ وہ پردے کے پیچھے بیٹھ کر عدالتی طریقہ کار کا غلط فائدہ اٹھا لے گا تو ایسا ہم نہیں ہونے دیں گے، ہمیں اس طرح کے ’پروکسی‘ درخواست گزاروں کو ’فکس‘ کرنا آتا ہے۔

چیف جسٹس نے انور منصور سے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ آپ اس مقدمے سے نکل جائیں، ورنہ آپ کسی مصیبت میں پھنس سکتے ہیں، یہ شخص آپ کو پھنسوا دے گا۔ انور منصور نے کہا کہ وہ ’واک آف‘ کے معنی و مفہوم سے آگاہی رکھتے ہوئے ’واک آف‘ کررہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس مقدمے میں کئی اور بھی اس نوعیت کے وکلا ہیں جن میں ایک اظہر صدیق بھی ہیں، یہ وکلا بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp