صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 12 ستمبر کو چیف الیکشن کمشنر کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے ملک میں عام انتخابات کے لیے 6 نومبر کی تاریخ تجویز کی کیونکہ 9 اگست کو اسمبلیوں کی تحلیل ہونے کے بعد 6 نومبر کو عام انتخابات کے لیے آئینی مدت یعنی 90 دن پورے ہو رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پہلے سپریم کورٹ میں 11 فروری کو عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا لیکن بعد میں جمعرات 2 نومبر کو صدر مملکت سے مشاورت کے بعد عام انتخابات کی حتمی تاریخ 8 فروری مقرر کر دی گئی ہے جس کے بعد یہ سوال ابھر کر سامنے آ گیا ہے کہ آیا عام انتخابات کے لیے 8 فروری کی تاریخ کا اعلان 90 روز کی آئینی بندش کی خلاف ورزی نہیں؟
مزید پڑھیں
سیاسی جماعتوں عام انتخابات چاہتی ہیں نہ کہ عدالتی کارروائی
23 اکتوبر اور جمعرات 2 نومبر کو 90 روز میں انتخابات کرائے جانے کے مقدمے میں تمام فریقین اور سیاسی جماعتوں کے وکلا نے اس نقطے پر اتفاق کیا کہ ملک میں عام انتخابات ہونے چاہییں۔
چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ملک کی 2 بڑی سیاسی جماعتوں بشمول پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے وکلا سے دریافت کیا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ مردم شماری کے آئینی اور غیر آئینی ہونے کے بارے میں اور 90 روز سے زیادہ انتخابات میں تاخیر کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے ہم پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت آئینی معاملات کی سماعت کے لیے 5 رکنی بینچ بنائیں تو ہم وہ بنا دیتے ہیں۔
لیکن اگر آپ انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں تو پھر ہم اس کا فیصلہ کر دیں گے جس پر تمام فریقین نے متفقہ طور پر جواب دیا کہ ہم ملک میں عام انتخابات چاہتے ہیں۔
قانونی ماہرین کی وی نیوز سے بات چیت
کنور دلشاد
90 روز میں انتخابات کے انعقاد کا معاملہ غیر مؤثر ہو گیا ہے
سابق چیف الیکشن کمشنر کنور دلشاد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 90 روز میں انتخابات کا موضوع اب اپنی اثر پزیری کھو چکا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اب اس پر بات نہیں ہونی چاہیے۔
ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے اور سیاسی جماعتیں الیکشن کی تیاری کریں گی۔ عدالت نے بھی 90 روز سے زیادہ کے معاملے کو نہیں چھیڑا۔ لیکن الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے اور میرے خیال سے 90 روز تاخیر کا معاملہ اب غیر مؤثر ہو گیا ہے۔
اکرام چوہدری
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اکرام چوہدری نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب سپریم کورٹ اس مقدمے کا تفصیلی فیصلہ جاری کرے گی تو اس میں لکھا جائے گا کہ 90 روز سے زیادہ تاخیر کو انہوں نے کس پیرائے میں دیکھا ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم کے بعد آرٹکیل 48 کو نئی زندگی ملی
اکرام چوہدری نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 254 کے تحت اگر کوئی آئینی کام اپنی مقررہ مدت میں انجام نہیں پاتا اور اس کے بعد تاخیر سے انجام پاتا ہے تو اس کو غیر آئینی نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے سپریم کورٹ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح سے انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو صدر پاکستان سے مشاورت کے لیے زور دیا تو اس سے آئین کے آرٹیکل 48 کو نئی زندگی ملی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 48 کے مطابق صدر پاکستان کو انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار حاصل ہے۔ حالانکہ الیکشن ایکٹ میں اس حوالے سے ترمیم کر دی گئی تھی لیکن ایکٹ آئین سے بالا تر نہیں ہو سکتا۔
صدر نے 6 نومبر کی تاریخ دے کر اپنا فریضہ ادا کر دیا تھا
اکرام چوہدری کا کہنا تھا کہ صدر نے 6 نومبر کی تاریخ دے کر اپنا فریضہ ادا کر دیا تھا اور پھر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا فیصلہ بھی موجود تھا، لیکن ہماری انتظامیہ اور اور الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کی خلاف ورزی کی جس کا اب سپریم کورٹ نے ازالہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے نوے روز میں انتخابات کی خلاف ورزیوں کو درست کرنے کے لیے درست اقدامات کیے ہیں۔