چیف جسٹس نے فیصلے میں کہا کہ انتخابات انشااللہ 8 فروری کو ہوں گے، ہم نے انتخابات کے انعقاد کے لیے سب کو پابند کر دیا ہے، اب کوئی رہ تو نہیں گیا۔ اٹارنی جنرل نے بھی 8 فروری کو عام انتخابات کے انعقاد پرکوئی اعتراض نہیں کیا، صدر مملکت اور الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے لیے پورے ملک کو تاریخ دی ہے، وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے اتفاق کیا کہ انتخابات کا انعقاد بغیر کسی خلل کے ہو گا۔
چیف جسٹس نے درخواستگزار منیر احمد کو ایک مشکوک شخصیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان پر بہت سے سوالات ہیں۔ میڈیا پر انتخابات کے حوالے سے مایوسی پھیلانے پر اٹارنی جنرل پیمرا کے ذریعہ کارروائی کروائیں، اگر میں زندہ رہا تو میں بھی یہ ہی کہوں گا۔ اگر کسی سے فیصلے نہیں ہو پا رہے تو وہ گھر چلا جائے، اگر میڈیا نے شکوک شبہات پیدا کیے تو وہ بھی آئینی خلاف ورزی کریں گے۔ آزاد میڈیا ہے ہم ان کو بھی دیکھ لیں گے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کو پتہ ہے ہم نے کیسے عملدرآمد کروانا ہے۔
مزید پڑھیں
90 دن میں عام انتخابات سے متعلق کیس پر سپریم کورٹ نے حکمانہ جاری کرتے ہوئے تمام درخواستیں نمٹا دیں۔ حکمنامہ کے مطابق ہر آئینی آفس رکھنے والا اور آئینی ادارہ بشمول الیکشن کمیشن اور صدر آئین کے پابند ہیں، آئین کی خلاف ورزی کے سنگین نتائج ہوتے ہیں، آئین پر علمداری اختیاری نہیں، صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کی وجہ سے غیر ضروری طور پر معاملہ سپریم کورٹ آیا۔
حکمنامے میں لکھا گیا کہ قومی اسلمبلی تحلیل ہونے کے بعد صدر اور الیکشن کمیشن کے مابین اختلاف ہوا، چاروں صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز نے حکمنامہ پر کوئی اعتراض نہیں کیا، صدر نے خط میں لکھا کہ الیکشن کمیشن صوبائی حکومتوں سے مشاورت کرکے تاریخ کا اعلان کرے۔
’اس خط پر الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا، سپریم کورٹ کا تاریخ دینے کے معاملے پر کوئی کردار نہیں ہے، صدر مملکت اعلیٰ عہدہ ہے لیکن حیرت ہے کہ صدر مملکت اس نتیجے پر کیسے پہنچے ہیں، تاریخ دینے کا معاملہ سپریم کورٹ یا کسی اور عدالت کا نہیں ہے۔ صدر مملکت کو اگر رائے چاہیے تھی تو آرٹیکل 186 کے تحت رائے لے سکتے تھے۔‘
حکمنامے کے مطابق سپریم کورٹ آگاہ ہے ہم صدر اور الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر سکتے، انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرنے پر پورا ملک تشویش کا شکار ہوا، یہ باتیں کی گئیں کہ ملک میں انتخابات کبھی نہیں ہوں گے، یہ آئین کی اسکیم ہے کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار نہیں ہے۔
حکمنامے میں مزید لکھا گیا کہ سپریم کورٹ صرف سہولت کار کے طور پر صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کے درمیان مشاورت کا کہہ سکتی ہے، یہ عدالت صرف یہ کہہ سکتی ہے کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے۔ اس معاملے پر صدر مملکت یا الیکشن کمیشن دونوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
’سپریم کورٹ کے جاری کردہ حکمنامے میں انتخابات سے متعلق لکھا گیا کہ انتخابات کے سازگار ماحول پر بہتری ہر شہری کا بنیادی حق ہے، یہ ذمہ داری اُن پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے یہ حلف اُٹھا رکھا ہے، چیف الیکشن کمشنر، ممبران اور صدرمملکت حلف لیتے ہیں عوام کو صدر مملکت یا الیکشن کمیشن آئین کی عملداری سے دور نہیں رکھ سکتے، حادثاتی طور پر پاکستان کی تاریخ میں 15 سال آئینی عملداری کا سوال آیا۔‘
’الیکشن کمیشن کا انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کیا گیا، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم نہ صرف آئین پر عمل کریں بلکہ ملکی آئینی تاریخ کو دیکھیں، آئینی خلاف ورزی کا خمیازہ ملکی اداروں اور عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ عدالتوں کو ایسے معاملات کا جلد فیصلہ کرنا پڑے گا۔ قومی اسمبلی اس وقت تحلیل ہوئی جب وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد آئی، وزیراعظم کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار نہیں تھا، اس وقت کے وزیراعظم نے اسمبلی تحلیل کرکے آئینی بحران پیدا کر دیا۔‘
سپریم کورٹ کے حکمنامے میں لکھا گیا کہ اسمبلی تحلیل کیس میں ایک جج نے کہا کہ صدر مملکت پر پارلیمنٹ آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرے، عجیب بات ہے صدر مملکت نے وہ اختیار استعمال کیا جو ان کا نہیں تھا، عجیب بات ہے صدر مملکت نے وہ اختیار استعمال نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا۔ عوام پاکستان حقدارہیں کہ ملک میں عام انتخابات کروائے جائیں۔
’ہم محسوس کر رہے ہیں کہ ہمارا کردار صرف سہولت کاری کا ہے، انتخابات کا معاملہ تمام فریقین کی رضامندی سے حل ہو چکا ہے، 8 فروری کو عام انتخابات کی تاریخ پر اتفاق ہوا ہے۔ آئین پر شب خون مارنے کی تاریخ سے سیکھنا ہوگا کہ اِس کے عوام اور ملکی جغرافیائی حدود پر منفی اثرات پڑے ہیں۔‘
اس سے قبل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ لکھوانے سے پہلے ریمارکس دیے کہ کیا سب خوش ہیں کسی کو کوئی اعتراض تو نہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے تمام ممبران نے متفقہ فیصلہ کیا ہے اس میں کوئی ایشو نہیں ہے۔
90 دن میں عام انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی، پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر اور اٹارنی جنرل سمیت دیگر وکلاء کمرہ عدالت میں پیش ہوئے۔ اٹارنی جنرل کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر کا انتخابات کی تاریخ سے متعلق خط عدالت میں پیش کر دیا گیا، صدر مملکت اور الیکشن کمیشن وفد ملاقات کے منٹس بھی عدالت میں پیش کیے گئے۔
سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سماعت کی
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بنچ میں شامل ہیں۔ تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر اور اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر اور الیکشن کمیشن کی ملاقات کے منٹس عدالت کو کچھ دیر میں فراہم کردیتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ٹھیک ہے پھر کیس کو آخر میں ٹیک اپ کر لیتے ہیں۔ پہلے ہم روٹین کے مقدمات سن لیں بعد میں انتخابات کیس سنیں گے۔
چیف جسٹس نے کیس کی سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ کیا، اس دوران جسٹس عرفان سعادت نے بطور سپریم کورٹ جج عہدے کا حلف اٹھایا، جسٹس عرفان سعادت کی حلف برداری تقریب سپریم کورٹ میں ہوئی۔ حلف برداری تقریب میں ججز اور سینئر وکلاء نے شرکت کی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے اور چیف الیکشن کمشنر کا انتخابات کی تاریخ سے متعلق خط عدالت میں پیش کیا، صدر مملکت اور الیکشن کمیشن وفد کی ملاقات کے منٹس بھی عدالت میں پیش کیے گئے، جس پر چیف جسٹس نے اعتراض اٹھایا کہ عدالت میں پیش کیے گئے ریکارڈ پر صدر کے دستخط نہیں ہیں، صدر مملکت نے دستخط کیوں نہیں کیے، پہلے ان دستاویز پر صدرمملکت کے دستخط کرواٸیں ، پھر آپکو سنتے ہیں۔ ہم کوئی بھی گرے ایریا نہیں چھوڑنا چاہتے ہیں اگر کوئی صدر مملکت آفس سے آتا ہے تو اس کو بھی خوش آمدید کہیں گے۔
بعد ازاں اٹارنی جنرل نے 8 فروری کو عام انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کیا۔ نوٹیفکیشن پر صدر مملکت کے سیکرٹری کے دستخط موجود ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کی ہدایت کے مطابق چیف الیکشن کمشنر اور ممبران صدر مملکت سے ملے اور متفقہ طور پر 8 فروری بروز جمعرات کو انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا۔