جب نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بنے

پیر 6 نومبر 2023
author image

احمد ولید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

80 کی دہائی میں لاہور کے علاقوں گوالمنڈی اور گڑھی شاہو کی گلیوں کی دیواروں پر رنگین چمکدار پوسٹرز پر ابھرتے ہوئے ایک کشمیری سیاستدان کی سائڈ پوز میں تصاویر نے لوگوں کو چونکا دیا۔ الیکشن کے دنوں میں عمومی طور پرامیدوار بلیک اینڈ وائٹ اخباری کاغذ کے بنے پوسٹر چسپاں کرتے تھے۔ لاہور کے معروف، خوشحال اور بااثرکاروباری خاندان سے تعلق رکھنے والے میاں نواز شریف پوسٹرز پر ‘چمک’ دکھا کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

جنرل ضیاء کے دور میں وزیرخزانہ بنے پھر 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں پنجاب کے وزیراعلی بننے میں انہیں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ اس کے بعد 1988 کے الیکشن میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی مقبولیت اور ملک گیر انتخابی لہر کے آگے تو نہ ٹھہر سکے مگر دوبارہ پنجاب کی وزارت اعلی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ 1990 میں بینظر بھٹو کی حکومت کو دو سال کی مختصر مدت کے بعد ہی گھر بھیج دیا گیا اور اگلے الیکشن میں نواز شریف اسلامی جمہوری اتحاد کی سربراہی کرتے ہوئے پہلی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ سابق صدر پاکستان اسحاق خان نے 6 نومبر 1990 کو ان سے حلف لیا۔

پاکستان کی تاریخ میں یہ پانچویں عام انتخابات تھے اور اسلامی جمہوری اتحاد نے قومی اسمبلی میں 105 نشستیں حاصل کیں جبکہ ان حریف پی ڈی اے نے صرف 45 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ ایم کیو ایم، اے این پی اور دیگر جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے حصے میں 56 نشستیں آئیں۔

وزیراعظم بنتے ہی نواز شریف نے منشور کے مطابق ملک میں سڑکوں کا جال بچھانے کے منصوبے پر عملدرآمد شروع کردیا اور جنوبی ایشاء کی پہلی لاہور- اسلام آباد موٹروے کا سنگ بنیاد رکھا۔ ذوالفقار بھٹو کی نجی اداروں کے قومیانے کی پالیسی کے برعکس اداروں کی نجکاری شروع کردی جس میں ان کی اپنی اتفاق فاونڈری بھی شامل تھی۔ دیگر اقدامات میں مارکیٹ اصلاحات اور کاروبار کے فروغ کے لیے قوانین متعارف کروائے۔

بین الاقوامی میڈیا نے نواز شریف کی خوب پذیرائی کی اور پاکستان میں کاروبار کے فروغ، نجکاری اور معیشت کی بحالی جیسے اقدامات کو سراہا۔ نواز شریف نے جوہری پالیسی کا اعلان کیا جس کا مقصد ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جوہری ٹیکنالوجی کی ترقی کو جاری رکھنا تھا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ‘ضیاء الحق کی فوجی حکومت کا اولین مقصد پیپلز پارٹی کے مقابلے کے لیے متبادل لانا تھا، نواز شریف کو بعد ازاں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وزیراعلیٰ بنادیا گیا، انہوں نے پنجاب کے کاروباری اور تجارتی طبقے کی نمائندگی کی’۔

اسی دوران پاکستان پیپلز پارٹی نے اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت پر اسٹیبلشمنٹ کی معاونت سے اقتدار حاصل کرنے کے الزامات لگانے کی مہم تیز کردی۔ ادھر نواز شریف کی صدر اسحاق خان سے ٹھن گئی۔ انہوں نے قوم سے ایک جذباتی خطاب میں کہا کہ وہ اسمبلی توڑیں گے نہ کسی سے ڈکٹییشن لیں گے۔ مگر صدر اسحاق خان سے ان کی محاز آرائی ان کی حکومت کے خاتمے کی وجہ ثابت ہوئی۔

نواز شریف نے اپنی حکومت کے خاتمے کے صدارتی اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔ چیف جسٹس سید نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے فل بینچ نے تقریباً پانچ ہفتے کی سماعت کے بعد 26 مئی 1993 کو قومی اسمبلی اور نواز شریف حکومت کی غیر مشروط بحالی کا حکم جاری کر دیا۔ جسٹس سجاد علی شاہ فل بنچ کے واحد جج تھے جنہوں نے اختلاف کیا اور اپنا طویل اختلافی فیصلہ لکھا۔

کچھ ہی عرصے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں نے دھمکی دی کہ اگر نواز شریف نے مستعفی ہو کر انتخابات کا اعلان نہ کیا تو وہ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کریں گے۔ اس بحرانی صورتحال میں آرمی چیف جنرل عبد الوحید کاکڑ نے بے نظیر بھٹو کو لانگ مارچ منسوخ کرنے پر راضی کر لیا۔ کاکڑ فارمولے کے تحت صدر اسحاق خان کے استعفے اور وقت پر انتخاب کی ضمانت کے بعد نواز شریف نے اسمبلیاں تحلیل کردی۔ اور یوں باہمی رضامندی سے معین قریشی کو نگران وزیراعظم بنا کر عام انتخابات کی تیاریاں شروع کردی گئیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp