پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) نے آئندہ عام انتخابات کے تناظر میں مرکزی دھارے کی 3 بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منشور کا موازنہ کیا ہے جو گزشتہ 3 ادوار کے دوران حکومت سازی میں سب سے آگے رہی ہیں۔
اس تحقیقی رپورٹ کا مقصد اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ آیا منشور میں کوئی ٹھوس منصوبہ رکھا جاتا ہے یا پھر یہ محض کھوکھلے وعدوں اور وسیع بیانات پر ہی مشتمل ہوتے ہیں، جس میں مستقبل کے لیے کوئی ہوم ورک نہیں ہے۔
اس سلسلے میں پی آئی ڈی ای نے تمام سیاسی جماعتوں کے منشور اور ان کے سیاسی طریقہ کار کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لے کرانہیں اپنے اندر اصلاحات لانے کی تجاویز پیش کی ہیں۔ یہ اصلاحاتی تجاویز برسوں کی تحقیق اور شواہد پر مبنی ہیں اور اس میں بہترین عالمی طریقے استعمال کیے گئے ہیں۔
اس تحقیق کے لیے پی آئی ڈی ای نے ملک کے 18 کلیدی مسائل اور شعبوں کا انتخاب کیا ہے جو بقول اس کے پاکستان کے کلیدی بنیادی شعبے اور مسائل ہیں۔ ان میں لوکل گورنمنٹ، پارلیمنٹ، انتخابات، کابینہ، پولیس، بیوروکریسی، بجٹ سازی، قرضوں کا انتظام، پی ایس ڈی پی، رئیل اسٹیٹ، زراعت، توانائی، ٹیکسیشن، ٹیرف، تجارت، سرکاری ملکیت کے اداروں (ایس او ایز) اور انٹرنیٹ شامل ہیں۔ ہر انڈیکیٹر کے لیے زیادہ سے زیادہ 100 کا اسکور رکھا گیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے 17 میں سے صفر پوائنٹ حاصل کیا
پی آئی ڈی ای کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی نے 17 میں سے صفر پوائنٹ حاصل کیا، پاکستان تحریک انصاف نے 13 میں سے صفر جب کہ مسلم لیگ (ن) نے 12 میں صفر نمبر حاصل کیے۔
مطلب کے پاکستان پیپلز پارٹی نے ملک کے کلیدی 18 مسائل اور شعبوں میں سے صرف ایک پر توجہ دی، پاکستان تحریک انصاف نے 13 بنیادی مسائل اور شعبوں پر کوئی توجہ نہیں دی، جب کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے 12 بنیادی مسائل اور شعبوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔
پی آئی ڈی ای کی رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے ملک کے اقتصادی اور دیگر کلیدی مسائل کے حوالے سے 20 فیصد سے بھی کم نمبر حاصل کیے جس کا مطلب ہے کہ انہوں نے پاکستان کے کلیدی معاشی اور پالیسی مسائل میں سے صرف 20 فیصد کے بارے میں بات کی یا ان کے لیے کچھ ٹھوس اقدامات کرنے کا خیال ظاہر کیا۔
پی آئی ڈی ای کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 20 فیصد اعداد و شمار کا مزید جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کے کلیدی مسائل میں سے صرف 12 فیصد کو مسلم لیگ (ن) نے اپنے منشور میں جگہ دی جب کہ 7 فیصد کو پیپلز پارٹی کے منشور میں اور 1.5 فیصد کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منشور میں شامل کیا گیا۔
ملک کے کلیدی مسائل کو سیاسی جماعتیں منشور میں کوئی اہمیت نہیں دیتیں
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قوم کے کلیدی مسائل کو سیاسی جماعتیں منشور میں کوئی اہمیت نہیں دیتیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں تو ان کے پاس کام کرنے کے لیے کوئی ٹھوس خاکہ نہیں ہے۔
سیاسی جماعتوں کے منشور میں ذاتی مفادات کی تکمیل کا عنصر پایا جاتا ہے
رپورٹ کے مطابق سیاسی جماعتوں کے منشور میں حقیقت کا فقدان پایا جاتا ہے، منشور میں ملک کی طویل المدتی ترقی کے لیے کچھ کرنے کی پرواہ کیے بغیر محض حکمرانی، ایڈہاک ازم اور صرف ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے دور اندیشی اور نقطہ نظر پیش کیا جاتا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ نے ایک اور تحقیقی خاکے میں اس بات کا بھی موازنہ کیا ہے کہ کیا منشور میں جن باتوں کا ذکر کیا جاتا ہے آیا پارٹی رہنماؤں کے بیانیے اور اس میں کوئی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
انتخابات سے قبل کے وعدوں اور بعد کے منظر نامے میں واضح فرق ہوتا ہے
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) نے حکمرانوں اور سیاسی رہنماؤں کے سوشل میڈیا پر بیانات کا بھی موازنہ کیا جس سے یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ سیاسی رہنماؤں کی جانب سے پیش کردہ انتخابات سے قبل کے وعدوں اور انتخابات کے بعد کے منظرنامے کی حقیقت کے درمیان واضح فرق پایا جاتا ہے۔
پی آئی ڈی ای کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری کیے جانے والے بیانات میں معاشی عدم مساوات، بنیادی ڈھانچے، بے روزگاری، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، گورننس، بدعنوانی، سلامتی، ماحولیات اور انسانی حقوق جیسے بنیادی مسائل کو مکمل نظر انداز کیا جاتا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ (سابق ٹوئٹر) کو پاکستان میں سیاسی رہنما سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں،جس پر ہونے والی سیاسی رہنماؤں کی گفتگو کا بھی جائزہ لیا گیا۔
پی پی پی اور ن لیگ کی قیادت کی توجہ خاندانی سیاست اور تنازعات پر مرکوز رہی
اس جائزے سے پتہ چلا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے زیادہ تر توجہ خاندانی وراثت اور سیاسی تنازعات پر مرکوز رکھی۔
تحریک انصاف کی سیاست جموں کشمیر کے مسئلہ کے گرد گھومتی رہی
جائزے کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے سربراہ کی گفتگو بنیادی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں کشمیر کے گرد گھومتی ہے جو دیگر اہم قومی مسائل پر حاوی رہی جو کہ ملک کی اعلیٰ سیاسی قیادت کی جانب سے ملکی مسائل پر توجہ اور عزم کی کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔
پی آئی ڈی ای نے اپنی رپورٹ میں تجویز کیا ہے کہ سیاسی رہنما پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کلیدی پالیسی معاملات کو ترجیح دیں۔
سیاسی جماعتوں کو ملک کی ترقی کے لیے واضح روڈ میپ دینا ہوگا
منشور محض کاغذی وعدوں کے طور پر نہیں رہنا چاہیے۔ سیاسی رہنماؤں کو ملک کی تعمیر و ترقی اور بہتری کے لیے معاشی اور کلیدی پالیسیاں ترتیب دینی چاہییں، حکمران جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ملک کی بہتری کے لیے ایک واضح روڈ میپ دیں اور متبادل کے طور پر اس میں حزب اختلاف کے لیے قابل عمل پالیسی فراہم کرنی چاہیے۔
خاندانی وراثت اور سیاسی کیچڑ اچھالنے کی بجائے پالیسی معاملات پر توجہ دینا ہوگی
انسٹی ٹیوٹ نے اپنی رپورٹ میں ذاتی شکایات، خاندانی وراثت اور سیاسی کیچڑ اچھالنے کے بجائے سیاست کو ٹھوس پالیسی معاملات کی طرف منتقل کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور سیاسی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ اختلافات میں باہمی گفتگو پر توجہ مرکوز کریں اور پاکستان کو درپیش دائمی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایکس (ٹوئٹر) جیسے سوشل میڈیا ٹولز سے فائدہ اٹھائیں۔