اگلا بکرا کسے بنایے گا؟

منگل 7 نومبر 2023
author image

وسعت اللہ خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یوگنڈا میں جنوری 1971 میں جنرل عیدی امین برسرِ اقتدار آئے۔ اگست 1972 میں انہوں نے لگ بھگ ایک صدی سے آباد 80 ہزار ایشیائی  باشندوں ( ہندوستانی نژاد) کو 90 دن میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ان کی ساڑھے 5 ہزار کمپنیاں، فارم ہاؤس، گھر اور گاڑیاں ضبط کر لی گئیں۔ صرف 232 کلو گرام اسباب اور 120 ڈالر کے مساوی کرنسی لے جانے کی اجازت دی گئی۔

ان میں وہ 20 ہزار ایشیائی بھی تھے جو یوگنڈا کے شہری تھ۔ 23 ہزار کے پاس برطانوی نوآبادیاتی دور کے پاسپورٹ تھے۔ لہذا یہ تمام باشندے برطانیہ، کینیڈا، انڈیا، پاکستان اور کینیا میں کھپ گئے ۔مگر اس اچانک دیس نکالے کے اثرات یوگنڈا کی معیشت اور خارجہ تعلقات کو آئندہ کئی عشروں تک بھگتنا پڑے۔

پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں جب لاکھوں پناہ گزینوں اور مہاجروں کا بحران سر پر آ گیا تو اس سے نمٹنے کے لیے سنہ 1951 کا بین الاقوامی ریفیوجیز کنوینشن مرتب ہوا۔ اس کنوینشن نے اقوامِ متحدہ کے ادارہِ برائے پناہ گزیناں ( یو این ایچ سی آر ) کو جنم دیا ۔ کنوینشن کی اقوامِ متحدہ کے 146 رکن ممالک توثیق کر چکے ہیں۔ جبکہ  پناہ گزینوں اور شہریت سے محروم افراد کے تحفظ کے اضافی پروٹوکول مجریہ 1967 پر 147 ممالک دستخط کر چکے ہیں۔

بین الاقوامی ریفیوجیز کنوینشن کے تحت ہر وہ انسان جو عقیدے، نظریے، رنگ و نسل کے سبب جان کے خوف سے زمین یا ریاست ترک کرنے پر مجبور ہوا ہو پناہ گزین کہلائے گا۔ اسے  طے شدہ ناگزیر شرائط  کے سوا میزبان ملک جبراً بے دخل نہیں کر سکتا۔ اسے ضروری دستاویزات نہ ہونے کے باوجود جان کے خوف سے کسی ریاست میں داخل ہونے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اسے عقیدے، روزگار، تعلیم، صحت، رہائش اور نقل و حرکت کے بنیادی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ اسے سفر کے لیے ضروری عارضی دستاویزات فراہم کرنے کی سہولت ملنی چاہیے۔اسے سماجی تعصبات سے تحفظ حاصل ہونا چاہیے۔

جنوبی ایشیا میں سوائے افغانستان  کے کسی ریاست نے ان بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط نہیں کیے۔ حالانکہ پاکستان ان ممالک میں شمار ہوتا ہے جو 1947 کی تقسیم، 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام اور 1980 کے عشرے کی افغان خانہ جنگی کے پیدا کردہ عظیم پناہ گزین مسائل کا براہِ راست متاثر ہے۔ مگر پاکستان بین الاقومی کنوینشن پر دستخط نہ کرنے کے باوجود یو این ایچ سی آر کی افادیت سے مسلسل استفادہ کر رہا ہے۔

پاکستان میں شہریت کے قوانین تو لاگو ہیں مگر پناہ گزینوں سے متعلق کوئی مربوط ریاستی پالیسی موجود نہیں۔ لہٰذا ہر حکومت اس مسئلے کو اپنے اندرونی و بیرونی مفادات کے پیشِ نظر موم کی ناک کے طور پر برتتی آئی ہے۔ مثلاً ضیا حکومت نے ان ہی لاکھوں افغان مہاجرین کے لیے اپنے بازو کھول دیے جو آج بوجھ کہے جا رہے ہیں۔ تب ان کے عوض ڈالر آ رہے تھےاب آنا بند ہیں تو پناہ گزین بھی کھٹک رہے ہیں۔

سرکار کہتی ہے کہ وہ صرف ان پناہ گزینوں کو نکال رہی ہے جو غیرقانونی طور پر رھ رہے ہیں۔ جبکہ بین الاقوامی کنوینشنز میں غیر قانونی پناہ گزین کی اصطلاح موجود ہی نہیں۔ ہر وہ انسان جو جان، مال اور آبرو کے خوف سے پناہ چاہتا ہے اسے اس بنیاد پر نہیں روکا جا سکتا کہ دستاویزات کہاں ہیں۔ ایسے پناہ گزینوں کی حیثیت کے تعین کے لیے یو این ایچ سی آر موجود ہے۔ یو این ایچ سی آر نے کبھی پلٹ کے نہیں پوچھا کہ پاکستان نے تو ریفیوجیز کنوینشن پر دستخط نہیں کیے تو ہم پاکستان کی تکنیکی و انتظامی مدد کیوں کریں؟

میزبان ریاست کا اگر یہ حق ہے کہ وہ پناہ گزینوں کو واپس بھیجے تو یہ دیکھنا بھی اس کا فرض ہے کہ واپسی کے حالات ان کی جانی و مالی سلامتی کے لیے کس قدر سازگار ہیں۔

جن پناہ گزینوں کو واپس بھیجا جا رہا ہے ان میں سے کم ازکم 6 لاکھ وہ ہیں جو 15 اگست 2021 کو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد آئے۔ ان میں سے ہزاروں وہ ہیں جو مغربی ممالک جانے کے لیے ٹرانزٹ پر ہیں۔

دیگر پناہ گزینوں میں بیشتر کا تعلق اس دوسری، تیسری اور چوتھی نسل سے ہے جو پاکستان میں پیدا ہوئی اور اس کا افغانستان سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا میرا اس بنیاد پر انڈیا سے ہے کہ میرے والدین وہاں پیدا ہوئے۔

پاکستان سرکاری سطح پر خواتین کی فلاح یا لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق طالبان انتظامیہ کی پالیسی کے بارے میں تحفظات رکھتا ہے۔ اس نے طالبان کو افغانستان کی باضابطہ حکومت کے طور پر بھی تسلیم نہیں کیا۔

اب اگر یہ سب پناہ گزین طالبانی افغانستان واپس جائیں گے تو کیا بچیاں وہاں پڑھ پائیں گی؟ ان پناہ گزینوں کے گھر اور کاروبار پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ انہیں اونے پونے بیچ کے افغانستان کے کون سے شہر یا قصبے یا گاؤں میں جائیں گے جہاں کے مقامی باشندے انہیں خوش دلی سے قبول کر سکیں۔

جس طرح ان پناہ گزینوں کو 4 عشرے قبل جوق در جوق  لینے کی پالیسی فردِ واحد کا فیصلہ تھی۔ اسی طرح ان کی جبری واپسی بھی فردِ واحد یا اس سے جڑے چند لوگوں کا فیصلہ ہے۔ نہ ماضی میں اس بابت وسیع قومی مشاورت کی گئی اور نہ اب کی جا رہی ہے۔

جس طرح ماضی کے فیصلے نے پاکستانی سماج کی جڑیں ہلا کے رکھ دیں۔ اسی طرح موجودہ عاجلانہ فیصلہ بھی کوئی مثبت نتیجہ پیدا نہیں کرے گا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان مہاجرین کو نکالنا اس لیے ضروری ہے تاکہ امن و امان کے حالات بہتر ہو جائیں۔

پہلے ہمارا خیال تھا کہ اگر کابل سے کیمونسٹ حکومت دفعان ہو جائے اور ان کی جگہ مجاہدین آ جائیں تو پاکستان کی اندرونی سلامتی بہتر ہو جائے گی۔ پھر ہمارا خیال تھا کہ اگر مجاہدین کی جگہ طالبان آ جائیں تو ہمارے دلدر دور ہو جائیں گے۔ نائن الیون کے بعد انہی طالبان کو ہٹانے میں ہم نے امریکا کی مدد کی اور حامد کرزئی کو کوئٹہ سے قندھار بھیجا۔ پھر کرزئی اور اس کے بعد اشرف غنی ’را کے ایجنٹ‘ قرار پائے۔

پھر ہمارا خیال ہوا کہ اگر  طالبان دوبارہ آ جائیں تو ہماری قومی سلامتی کو لاحق خطرہ کم ازکم آدھا ہو جائے گا۔ اب ہمارا خیال ہے کہ خرابی کی جڑ تو مہاجرین ہیں۔

اگر ان کے بوجھ سے نجات کے بعد بھی امن و امان  قابو میں نہ آیا تو اگلا بکرا کسے بنایے گا؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp