تاریخ گواہ رہے گی کہ اگر کسی ایک ٹیم نے ہر دوسری ٹیم کو برباد کیا ہے تو وہ ہے آسٹریلیا۔ آسٹریلیا کی ٹیم نے شاید ہی کسی ٹیم کو عمر بھر کا روگ نہ دیا ہو۔ وہ برباد نہیں، مکمل برباد کرتے ہیں۔
دنیا کی بہترین ٹیم جس وقت جیت کے لیے مکمل تیار ہوتی ہے، آسٹریلیا کی ٹیم آکر اچانک ایسے ہی وجتی ہے جیسے کسی نے رکھ کے تھپڑ رسید کردیا ہو۔ ہر جیت کو چھیننے والے، ہر ہنستے چہرے کی خوشی کو لوٹنے والے، ہر کامیاب ٹیم کو حقیر محسوس کرانے والے اور ہر بربادی کے جشن کا آغاز کرانے والے کو آسٹریلیا کی ٹیم کہتے ہیں۔
ہم پاکستانی 1999 کے ورلڈ کپ کو کیسے بھول سکتے ہیں؟ کیا ٹیم تھی ہماری۔ فائنل میں آکر لگتا تھا کہ اب تو یہ ورلڈ کپ ہمارا ہی ہے۔ ہمارا بولنگ اٹیک آسٹریلیا سے ہارنے سے زیادہ خوفناک تھا۔ شعیب اختر، وسیم اکرم، اظہر محمود اور ثقلین مشتاق۔ ہماری بیٹنگ میں سعید انور، عبدالرزاق، انضمام الحق، معین خان اور شاہد افریدی موجود تھے۔
جیسے 1999 کی پاکستانی کٹ سے زیادہ خوبصورت کوئی کٹ نہیں تھی، ایسے ہی اس ورلڈ کپ کی ٹیم سے زیادہ کوئی بہترین ٹیم نہیں تھی۔ ہمارے پاس سب کچھ تھا۔ ہم خوش تھے۔ لیکن وہ آسٹریلیا ہی کیا جو کسی کو خوش دیکھ سکے۔ ہمیں 133 پر آؤٹ کرکے ہماری خود اعتمادی کو ایسی چوٹ پہنچائی کہ آج تک اس کا زخم بھر نہیں سکا۔
یہ صرف ہمارے ساتھ نہیں ہوا۔ دنیا کی ہر ٹیم کے ساتھ آسٹریلیا نے ایسے ہی کیا ہے اور ان کا نیا شکار افغانستان ہے۔ افغانستان نے اس ورلڈ کپ میں آسٹریلیا جیسی ٹیم کے 7 کھلاڑی 91 رنز پر آؤٹ کردیے تھے اور کسی بھی عقلمند انسان کو یہی لگ رہا تھا کہ اب آسٹریلوی ٹیم نہیں جیت پائے گی کیونکہ انہیں 294 رنز کا تعاقب کرنا تھا۔
کیا کوئی بھی انسان اپنے ہوش و حواس میں سوچ سکتا تھا کہ آسٹریلیا کی طرف سے ایک کھلاڑی اس صورتحال میں نہ صرف آسٹریلیا کو جیت دلوا دے گا بلکہ 201 رنز بنا جائے گا؟
میکسویل پتہ نہیں کیا کھا کر آئے تھے، جو بھی تھا ہمیں وہی چاہیے۔ جب بیچ میں میکسویل کی ایک ٹانگ جواب دے گئی تو ہم نے سوچا کہ اب بس کوئی چانس نہیں آسٹریلیا کا۔ لیکن وہ آسٹریلیا ہی کیا جو دنیا کے ہر چانس کو اپنا نا بنا لے۔ بغیر خاص فوٹ ورک کے، میکسویل نے ایک جگہ کھڑے کھڑے چھکے اور چوکے مارے، بلکہ ایک دو جگہ ایک رن بھی لیا جس میں وہ چل رہے تھے، بھاگ نہیں رہے تھے۔ وہ ایک ٹانگ جس کو ہمیشہ دوسری ٹانگ کا سہارا رہا، کل وہ ناقابلِ تسخیر رہی۔
میکسویل کبھی لیٹے، کبھی فیزیو کو بلایا، کبھی خود کو ہی سہلایا لیکن انہوں نے اگلے کھلاڑی کو میدان میں آنے نہیں دیا۔ ایک ہوتا ہے دیوانہ پن اور کل تھا مکمل پاگل پن۔ کیا آپ کا دماغ یہ سوچ سکتا تھا کہ میکسویل ایک ٹانگ کے ساتھ افغانستان کو عمر بھر کی چوٹ دے جائے گا؟
میں میکسویل کی ٹانگ سے بہت متاثر ہوچکی ہوں اور میں بڑی ہوکر میکسویل کی ٹانگ ہی بنوں گی۔ جہاں میری دو ٹانگیں ہر 15 منٹ بعد سوجاتی ہیں، وہاں ان کی ایک ٹانگ 201 رنز بنا گئی۔ جہاں ہماری دونوں ٹانگیں زنگ لگنے کی وجہ سے اکثر چلنے کا نام ہی نہیں لیتی، وہاں ان کی ایک ٹانگ نے ہماری ٹانگوں کو شرمندہ کردیا۔ آپ خود بتائیں کہ کیا یہ ٹانگ دیکھ کر آپ کا دِل نہیں کیا کہ آپ بھی کہیں ’یہ ٹانگ مجھے دے دے، ٹھاکر‘۔
جہاں تک افغانستان کی بات ہے تو ہم انہیں ’آسٹریلیا تیرا ککھ نا روے‘ کلب میں خوش آمدید کہتے ہیں، جہاں ہر ٹیم ایک گہری چوٹ لے کر بیٹھی ہوئی ہے۔ یہ وہ غم ہے جس کا کسی کے پاس کوئی علاج نہیں ہے۔ اس غم کے ساتھ ہم سب کو جینا ہے اور گھٹ گھٹ کے آنسو پینے ہیں۔ وہ کہتے ہیں نا: یادِ آسٹریلیا عذاب ہے یا رب، چھین لے مجھ سے ورلڈ کپ!