بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس: بحریہ ٹاؤن قبضہ کرتے کرتے بلوچستان کے بارڈر تک پہنچ گیا ہے، سپریم کورٹ میں انکشاف

بدھ 8 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کراچی عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران درخواست گزار بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت کو بتایا کہ بحریہ ٹاؤن نے نیشنل پارک 40 ہزار ایکڑ زمین پر قبضہ کررکھا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ میں رقم جمع کرانے والے افراد اور کمپنیوں کو نوٹس جاری کیے گئے تھے۔ مشرق بینک کے وکیل نے کہا کہ بینک کو نوٹس دینے کی وجہ سمجھ نہیں آئی، بینک نے اگر رقم منتقل کی بھی ہے تو کسی اکاؤنٹ ہولڈر نے ہی دی ہوگی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بینک والے بتادیں رقم کس نے منتقل کی تھی؟ وکیل مشرق بینک نے کہا کہ تفصیلات فراہم کی جائیں تو شاید کچھ بتانے کی پوزیشن میں ہوں، روزانہ ہزاروں ٹرانزیکشنز ہوتی ہیں اس لیے فی الوقت کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔

بحریہ ٹاؤن کی ضمانت دینے والے ملک ریاض حسین کے وکیل سلمان بٹ بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ، کیا آپ علی ریاض کے بھی وکیل ہیں؟ سلمان بٹ نے جواب دیا کہ علی ریاض اور ملک ریاض الگ شخصیات ہیں، مجھے علی ریاض کے حوالے سے کوئی ہدایات نہیں ملیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ، کیا باپ بیٹا آپس میں بات نہیں کرتے؟ مناسب ہوگا ملک ریاض کے بیٹے اور اہلیہ کے حوالے سے معلوم کرلیں، ایسا نہ ہو عدالت کوئی حکم جاری کرے اور ان کے حقوق متاثر ہوں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم حتمی ہوچکا اس پر عملدرآمد ہر صورت ہونا ہے، ایسا ممکن نہیں کہ عدالت اپنے حکم سے پیچھے ہٹ جائے، گارنٹی دینے والوں کیخلاف کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے سندھ حکومت اور ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی دوستی ہوگئی ہے، رقم کا ایک حصہ بحریہ ٹاؤن نے جمع کرایا دوسرا بیرون ملک سے آیا۔ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور سندھ حکومت دونوں کہتے تھے پیسے انہیں دیے جائیں، اب دونوں کا اتفاق ہے کہ رقم سندھ حکومت کو منتقل کی جائے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا ایم ڈی اے نے بحریہ ٹاؤن کو تمام متعلقہ منظوریاں دی تھیں؟ وکیل ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے عدالت کو بتایا کہ 16 ہزار 896 ایکڑ کے مطابق لے آؤٹ پلان کی منظوری دی تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ملیر ڈویلپمینٹ اتھارٹی نے قانونی عمل کے بغیر زمین کیسے بحریہ ٹاؤن کے حوالے کر دی؟ زمین عوام کی تھی ایم ڈی اے کی ذاتی نہیں۔

قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ میں سے کسی نے جا کر زمین کی پیمائش کی ہے۔ حکومت درخواست گزار اور دیگر فریقین نے مختلف پیمائش بتائی ہے۔ آخر پیمائش کرنے میں کیا حرج ہے آپ فیتہ لیں اور پیمائش کردیں۔ یہ کام ابھی تک کیوں نہیں ہوا آخر مشکل کیا ہے۔ حدود پتا ہونی چاہیے تاکہ کل کو تجاوزات کا مسئلہ نہ اُٹھ سکے۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ اس حوالے سے مشترکہ سروے کروایا جائے تاکہ دوسری پارٹی اعتراض نہ کرے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ ابھی تک کروایا کیوں نہیں گیا آخر مسئلہ کیا تھا اس پر تو فیصلہ بھی موجود ہے پھر پیمائش کیوں نہ ہوئی؟ سرکاری وکیل نے بتایا کہ ہم نے اپنے ریکارڈ کے مطابق زمین بتائی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا ریکارڈ اتنا ہی اچھا ہوتا تو پھر کیا ہی بات تھی، آپ نے سوچا ہوگا کہ اب سرکار جائے اور زمین کی پیمائش کرے۔ چیف جسٹس نے وکیل سلمان بٹ سے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کا پراجیکٹ ختم ہو جائے؟ 2019 سے فیصلہ ہوا ہے اور ہمیں آج بحریہ ٹاؤن کا نقشہ دکھا رہے ہیں، کسی نے بحریہ ٹاون کے سر پر بندوق رکھی تھی کہ فیصلے کو تسلیم کرو؟

چیف جسٹس نے کہا جو آپ کر رہے ہیں یہ بالی وڈ یا لالی وڈ میں قابل قبول ہوگا آئینی عدالت میں نہیں۔ یہ اچھا ہے کہ معاہدے کے تحت پیسے نہیں دینے تو بہانے بناؤ، آپ فیصلے کے تحت ہوئے معاہدے کے مطابق رقم ادا کریں گے؟ ہاں یا ناں؟ وکیل بحریہ ٹاؤن نے کہا کہ اگر زمین کی قیمت کا تخمینہ دوبارہ لگا لیا جائے تو میں ادائیگی کرنے کو تیار ہوں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے فیصلے پر عمل نہیں کرنا، فیصلے پر عمل نہ کرنے کے خطرناک نتائج ہوں گے، عملدرآمد نہ ہونے پر نیب بحریہ ٹاؤن کراچی کے خلاف کارروائی کرے گا۔ بحریہ ٹاؤن کا معاہدہ دکھا دیں؟ وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کا معاہدہ تو سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آج میں نے 2 چیزیں سیکھ لیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نظر انداز ہو سکتا ہے اور فیصلہ معاہدہ ہوتا ہے، وکیل کو مخاطب کرکے پوچھا کہ یہ بتا دیں کہ عدالت کس قانون کے تحت اپنے ہی فیصلے پر عملدرآمد کرانے بیٹھی ہے؟ وکیل سلمان بٹ نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ اپنے اصل دائرہ اختیار کے تحت ہی فیصلے پر عملدرآمد کرا سکتی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اس عدالت کے فیصلے اور دائرہ اختیار کے تقدس کو پامال نہ کریں، بحریہ ٹاؤن کے زیر قبضہ زمین کی پیمائش کے بعد تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے۔

درخواست گزار بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت کو بتایا کہ 40 ہزار ایکڑ زمین پر بحریہ ٹاؤن نے قبضہ کر رکھا ہے جو نیشنل پارک کی زمین ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ یہ زمین کس قانون کے تحت قبضے میں لی گئی؟ بحریہ ٹاؤن پر ناجائز قبضے کے حوالے سے الزامات پر بھی رپورٹ جمع کرائی جائے۔ کیس کی سماعت 23 نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp