’سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان جانبدار ہیں‘، جسٹس مظاہر نقوی نے شوکاز نوٹس کا جواب دینے سے انکار کردیا

جمعہ 10 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنے خلاف دائر ریفرنسز سننے والی سپریم جوڈیشل کونسل پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ کونسل میں شامل ارکان ان کے بارے میں جانبدار ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل نے اظہار وجوہ کے نوٹس میں بھی جانبداری کا مظاہرہ کیا جس کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔

چیف جسٹس اور دیگر 2 ججز پر اعتراض

تفصیلات کے مطابق جسٹس مظاہر نقوی کی جانب سے 18 صفحات پر مشتمل اعتراضات سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرائے گئے، جسٹس مظاہر نقوی نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود خان اور جسٹس نعیم اختر افغان کی سپریم جوڈیشل کونسل میں شمولیت پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ نے شفاف ٹرائل جج کا حق قرار دیا، جوڈیشل کونسل کا مجھے جاری کردہ شوکاز نوٹس بنیادی حقوق کے منافی ہے۔

جوڈیشل کونسل جج کیخلاف کارروائی کا اختیار نہیں رکھتی

جسٹس مظاہر نے کہا کہ جوڈیشل کونسل کی کارروائی کی پریس ریلیز میری رائے کے بغیر جاری کرنے سے میرے بنیادی حقوق متاثر ہوئے، جوڈیشل کونسل کسی جج کے خلاف اس وقت کارروائی کر سکتی ہے جب متفقہ فیصلہ ہو،  جوڈیشل کونسل اکثریتی فیصلے کے ذریعے کسی جج کے خلاف کارروائی کا اختیار نہیں رکھتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کونسل کے رولز کو غیر آئینی قرار دینے کی رائے دے چکے ہیں، الزامات کی تصدیق کیے بغیر مجھے شوکاز نوٹس بھیجا گیا، کونسل اجلاس میں میرے خلاف شواہد کا جائزہ نہیں لیا گیا۔

‘چیف جسٹس نے میری تعیناتی کی مخالفت کی’

جسٹس مظاہر نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ تعیناتی کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مشرف فیصلے کے سبب جوڈیشل کمیشن میں میری تعیناتی کی مخالفت کی، 3 اپریل 2023ء کو جسٹس قاضی فائز اور جسٹس سردار طارق نے سابق چیف جسٹس کو خط لکھ کر میرے خلاف کارروائی چلانے کی بات کی، شکایات میں مجھ پر مبینہ آڈیو کا بھی حوالہ دیا گیا لیکن مبینہ آڈیو کی کبھی تصدیق نہیں کرائی گئی۔

انہوں نے اعتراض کیا کہ مبینہ آڈیوز کے لیے کمشین تشکیل دیا گیا جس میں چیف جسٹس قاضی فائز اور جسٹس نعیم افغان شامل تھے، دونوں معزز جج صاحبان کو میرے خلاف شکایت نہیں سننی چاہیے، جسٹس سردار طارق مسعود نے میرے خلاف شکایات پر رائے دینے میں جان بوجھ کر تاخیر کی۔

ریفرنس کا مکمل ریکارڈ فراہم کیا جائے

اس حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس قاضی فائز کے خلاف ریفرنس میں سماعت کے دوران جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن پر اعتراض کیا گیا جس پر دونوں جج صاحبان عدالتی بنچ سے الگ ہو گئے تھے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے خلاف لگنے والے تمام الزامات کو بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں شکایات اور دیگر مواد تک رسائی نہ ہونے کے سبب مفلوج ہوں، مجھے مکمل ریکارڈ فراہم کیا جائے۔

جوڈیشل کونسل ارکان اور اظہار وجوہ جانبدار ہیں

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ میرے خلاف جوڈیشل کونسل میں بھیجی گئی شکایات سیاسی مقاصد کے تحت ہیں، میرے خلاف شکایات میں شفافیت کا فقدان ہے اور غیر قانونی ہے، جوڈیشل کونسل میں شامل ممبران میرے بارے میں جانب دار ہیں، سپریم جوڈیشل کے جاری اظہار وجوہ کا نوٹس بھی جانبدار ہے جس کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔

پریس ریلیز میری رائے کے بغیر جاری کی گئی

انہوں نے مزید کہا کہ جوڈیشل کونسل نے 27 اکتوبر کی پریس ریلیز میری رضا مندی کے بغیر جاری کی، یہ پریس ریلیز میرے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اس پریس ریلیز کا مقصد میرا میڈیا ٹرائل اور عوام کی نظر میں تضحیک کرنا تھی، میرے خلاف کاروائی امتیازی سلوک اور آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے۔

جسٹس سردار طارق مسعود کیخلاف شکایت بھی 27 اکتوبر کو زیر غور تھی

جسٹس مظاہر نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے میری تقرری سمیت میرے متعدد فیصلوں کی مخالفت کی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس سردار طارق مسعود نے میرے خلاف کارروائی کے لیے چیف جسٹس بندیال کو خط لکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ جوڈیشل کونسل کے تمام فیصلے جانبدار ہونے کی وجہ سے غیر قانونی تصور ہونگے، جسٹس سردار طارق کیخلاف شکایت پر انکو شوکاز نوٹس جاری کیے بغیر شکایت کنندہ آمنہ ملک کو نوٹس کیا گیا، کونسل کے رکن جسٹس سردار طارق مسعود  کیخلاف بھی شکایت 27 اکتوبر کے اجلاس میں زیر غور تھی۔

27 اکتوبر کے اجلاس میں کیا ہوا تھا؟

واضح رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیرِ صدارت سپریم جوڈیشل کونسل نے 27 اکتوبر کو منعقدہ اپنے ایک اجلاس میں اکثریت کی بنیاد پر جسٹس مظاہر علی نقوی کو شوکاز نوٹس جاری کیا تھا، کونسل کے 3 کے مقابلے میں 2 ارکان نے جسٹس مظاہر کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کی مخالفت کی۔

جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں شریک تھے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ امیر بھٹی اور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس نعیم اختر افغان بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔ رجسٹرار سپریم کورٹ اور اٹارنی جنرل پاکستان بھی سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں شریک تھے۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے خلاف شکایت کے معاملے پر انہیں شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہے اور ان سے 10 نومبر تک شوکاز نوٹس پر جواب طلب کیا گیا ہے، پاکستان بار کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کی مبینہ آڈیو لیک پر ان کے خلاف ریفرنس دائر کر رکھا ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں ججز سے متعلق زیرِ التواء شکایات کا جائزہ لیا گیا، اجلاس میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی اور سابق چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے خلاف مس کنڈکٹ کی شکایت کا بھی جائزہ لیا گیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp