پلوامہ حملہ مُودی حکومت کی انتخابات میں عوامی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے ایک چال تھی۔ اس ضمن میں مودی حکومت نے اپنی عوام میں پاکستان دُشمنی اور پلوامہ کے نتیجے میں ابھرنے والے انتقامی جذبات کو استعمال کرتے ہوئے جنگی صورتحال قائم کی جس میں بھارتی میڈیا نے بھرپور کردار ادا کیا۔
چار سال گُزرنے کے بعد بھی پلوامہ حملے کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ پلوامہ حملہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے جن میں چند اہم سوالات غور طلب ہیں۔
عادل احمد ڈار کو 2016 سے 2018 تک 6 بار گرفتار اور رِہا کیوں کیا گیا؟
8 لاکھ بھارتی فوج کی نگرانی میں 350کلو گرام دھماکا خیز مواد سینکڑوں کلو میٹر دور بھارتی فورسز کی ناک کے نیچے سے کیسے لایا گیا؟
بغیر کسی ثبوت کے بھارت یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ حملے کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے جبکہ عادل احمد ڈار کے والدین یہ بات کہہ چکے ہیں کہ عادل ڈار کوBSFاورCRPFکی طرف سے متعدد بار تشدد کا نشانہ بنایا گیا؟
بھارت اب بھی حقائق بیان کرنے سے قاصر کیوں ہے؟
26 فروری 2019 کو بھارت نے ”آپریشن بندر“کے نام سے ایک فرضی بزدلانہ آپریشن کا منصوبہ بنایا جس کے کوئی بھی زمینی حقائق موجود نہیں۔
اس آپریشن میں جو گولہٰ بارود گرائے گئے اس سے چند کوّوں اور درختوں کو نقصان پہنچا جب کہ انڈین میڈیا نے اسے سرجیکل سڑائیک کا نام دیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق سینکڑوں لوگوں کی ہلاکت ہوئی۔ پاکستان نے اس واقعہ سے متعلق مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کو اس جگہ کا معائنہ بھی کرایا اور پلوامہ حملہ کی حقیقت بیان کی۔
27 فروری 2019 کو پاکستان ائیرفورس نے بھارت کے خلاف جوابی کارروائی کی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ کوئی جانی و مالی نقصان نہ ہو۔
اس جھڑپ میں پاکستان ائیرفورس نے2بھارتی طیاروں کو زمین بوس کیا اور بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو بھی گرفتار کیا۔ بھارتی ائیر فورس اس قدر حواس باختہ ہوئی کہ انہوں نے اپنے ہی ہیلی کاپٹر مار گرایا۔
پاکستان کی جانب سے خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی پائلٹ کو رِہا کر دیا اور ثابت کیا کہ پاکستان امن پسند مُلک ہے۔
رُسوائی سے بچنے کے لیے بھارت نے مضحکہ خیز بیانات دینا شروع کر دیے۔ پہلے انہوں نے کہا کہ کوئیMig-21 پاکستان کی طرف سے نہیں گرایا گیا۔
پھر کہا کہ ہماری ائیر فورس نے F-16 مار گرایا ہے۔ ان سب باتوں کو بھارت کے اپنے ہی دِفاعی ماہرین نے قبول کرنے سے انکار کیا۔
اس صورتحال میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ جو پائلٹ اپنے مُلک کا دِفاع نہ کرسکا اور پاکستان کی سرزمین پر پکڑا گیا، اُسے بھارتی تمغہ ’ویر چکرا‘ سے نوازدیا گیا۔
اس عمل کو بھارت نے یہ رنگ دینے کی کوشش کی کہ ابھی نندن نے بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے جبکہ حقیقتاً یہ بھارتی فورسز کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اس دعویٰ سے دُنیا بھر میں بھارت کی جَگ ہنسائی ہوئی۔
آپریشن Swift Retort اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کا مقابلہ کر سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی بھی حملے کا جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
پاکستان کی اس بھر پور جوابی کارروائی نے ناصرف جنگی ماحول کا خاتمہ کیا بلکہ بھارت کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔
بھارت کا یہ خواب کہ وہ کسی بھی مُلک کو جارحیت کا نشانہ بنا سکتا ہے، اُسے ہمیشہ کے لیے ملیہ میٹ کر دیا۔
بھارتی میڈیا جنگی جنون میں اس انتہا کو پہنچ جاتا ہے کہ اُسے اس بات اِدراک ہی نہیں ہوتا کہ اس جنگی ماحول کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں۔
اس کے برعکس پاکستان کے میڈیا نے بہت عقلمندی اور دانشمندی کا مظاہرہ کیا اور اس ساری صورتحال کو قابو کرنے میں اپنا بھرپور کردار بھی ادا کیا۔
پلوامہ حملے کی ٹائم لائن بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہے کیونکہ اس کے بعد بھارت کی حکومت بوکھلا ہٹ کا شکار ہو گئی اور غیر ارادی طور پر غلط فیصلے کرنے لگی۔
یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس سال 9 ریاستوں میں الیکشنز ہونے جا رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مُودی سرکار اس بار پھر الیکشنز میں کامیابی کے لئے پلوامہ طرز کے حملہ کی کوئی حکمت عملی اختیار کرے گا؟
کیا مُودی اپنیRSS کی سوچ کو لے کر علاقے کے امن و امان کو دوبارہ برباد کرنے کی کوشش تو نہیں کر رہا؟
دُنیا کو یہ جاننا چاہیے کہ appeasement کی جو پالیسی دوسری جنگ عظیم کے دوران عمل میں لائی گئی۔ اس سے بھاری جانی و مالی نقصان ہوا۔ کیا دُنیا اب بھی بھارت کے ان خطرناک جنگی عزائم کو اپنے مقاصد کی خاطر بھلا دے گی یا اس بڑی جمہوریت کے علمبردار بھارت کے خطرناک عزائم کا ازالہ کرے گی؟