پاکستان بھر میں ریلوے اسٹیشنز برطانوی دور حکومت کی جھلک پیش کرتے ہیں۔ جہاں تعمیر کے اعتبار سے وہ اسٹیشنز انتہائی خوبصورت تھے وہیں ان میں ابتدا سے ہی بزرگ شہریوں کا خیال رکھتے ہوئے لفٹ بھی نصب کی گئی تھی جو کراچی کے سٹی اسٹیشن میں آج بھی اسی طرح کام کر رہی ہے۔
جدید دور میں لفٹ کا استعمال عام ہو چکا ہے اوران میں عرصہ دراز سے بٹنوں کا استعمال ہوتا ہے لیکن کراچی سٹی اسٹیشن میں سنہ 1935 میں لگنے والی لفٹ بٹنوں کے بجائے ایک مخصوص لیور سے چلائی جاتی ہے۔
سٹی اسٹیشن میں موجود یہ لفٹ اب تک اپنی اصل حالت میں موجود ہے اور اسے پاکستان ریلوے کی جانب سے بحال و برقرار رکھا گیا ہے۔
پاکستان ریلوے کے میڈیا کوآرڈینیٹر ریاض عباسی کے مطابق یہ لفٹ سنہ 1935 میں پڑتل کی لکڑی سے بنائی گئی تھی جو اب تک اسی حالت میں موجود ہے اور اگر اس کا بدستور خیال رکھا گیا تو یہ مزید 100 سے زائد برسوں تک کام کرسکتی ہے۔
یو ڈی سی آفیسر ویلفئیر برانچ پاکستان ریلوے محمد عارف خان نے وی نیوز کو بتایا کہ لفٹ کا ایک لیور ہے جسے دائیں جانب گھمانے کا مطلب ہے کہ بالائی منزل پر جانا ہے اور اسی لیور کو اگر آہستہ آہستہ واپس بائیں جانب لایا جائے تو یہ لفٹ بتدریج گراؤنڈ فلور پر آجاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر درمیان میں کہیں رکنا ہے تو اسی لیور کو وہیں روک دیں جس سے لفٹ رک جائے گی۔