قائداعظم محمد علی جناح نے فروری 1936 میں بادشاہی مسجد لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ’اگر مجھے پنجاب سے ظفر علی خان جیسے دس، 12 بہادر مل جائیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ برصغیر کے مسلمانوں کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔‘
مولانا ظفرعلی خان عہد ساز اور تاریخ کا دھارا بدلنے والی شخصیت تھے۔ روزنامہ ’زمیندار‘ کے مدیر کی حیثیت سے مولانا نے تحریک آزادی میں ایسی روح پھونکی، جس نے علامہ اقبال کے خواب کو تعیبر عطا کی۔ مولانا ظفر علی خان مسلمانانِ برصغیر کے فدائے ملت رہنما، شعلہ بیاں مقرر، بے مثل صحافی، منفرد شاعر اور عاشقِ رسولﷺ تھے۔ گراں قدر صحافتی خدمات کے اعتراف میں آپ کو ’بابائے صحافت‘ کا خطاب دیا گیا تھا۔
مولانا ظفر علی خان 18 جنوری 1874 کو، کوٹ مہرتھ تحصیل وزیر آباد میں مولانا سراج الدین احمد خان کے گھر پیدا ہوئے۔ 27 نومبر 1956 کو اپنے آبائی علاقے کرم آباد تحصیل وزیر آباد میں انتقال کر گئے تھے۔ آج ’بابائے صحافت‘ کی 67ویں برسی ہے۔
علی گڑھ یونیورسٹی کے اولین گرایجویٹس میں سے تھے
آپ نے ابتدائی تعلیم مشن ہائی سکول وزیر آباد سے حاصل کی جبکہ میٹرک کا امتحان 1890 میں مہندرا کالجیٹ ہائی سکول پٹیالہ سے پاس کیا۔ 1892 میں انٹرمیڈیٹ، ایم اے او کالج علی گڑھ سے پاس کیا۔ بعد ازاں محکمہ ڈاک و تار کشمیر میں ملازمت کرلی جہاں ان کے والد سراج الدین احمد اعلیٰ افسر تھے۔ ملازمت میں جی نہ لگنے پر دوبارہ تعلیم کا سلسلہ شروع کر دیا اور 1895 میں علی گڑھ یونیورسٹی فرسٹ ڈویژن میں بی اے پاس کیا۔ یونیورسٹی میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے۔
زمیندار اخبار، اجراء سے اختتام تک
مولانا سراج الدین احمد خان نے یکم جون 1903 کو لاہور سے ہفت روزہ اخبار زمیندار جاری کیا۔ جس کا مقصد زمینداروں کے لیے زرعی خبریں اور ضمیمے شائع کرنا تھا۔ 9 نومبر 1909 میں مولانا سراج الدین احمد خان کی وفات کے بعد مولانا ظفر علی خان نے زمیندار کی ادارتی ذمہ داری سنبھالی۔
زمیندار پہلا اردو اخبار ہے جس نے دوسرے ممالک میں بھی نمائندگان مقرر کیے۔ 1912۔1911 میں جنگ طرابلس کے دوران روزنامہ زمیندار نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا تھا جب اس کی اشاعت 20 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ 1932 میں ایک انگریزی صفحے کا اضافہ بھی کیا گیا جو زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔
علامہ اقبال کی شاعری کے ساتھ ساتھ مولانا چراغ حسن حسرت، مولانا عبدالمجید سالک، مولانا غلام رسول مہر، مولانا مرتضیٰ احمد خان سمیت اس دور کے بڑے بڑے ناموں سے زمیندار کا قد کاٹھ خاصا بڑھ گیا تھا۔ زمیندار پہلا اردو اخبار تھا جس نے نیوز ایجنسیز سے نیوز سروس لی تھی۔ سب سے پہلے ادارتی صفحہ شروع کیا جس پر باقاعدہ کالم شائع ہوتے تھے۔
مولانا ظفر علی خان کی جرات و بیباکی کی بدولت انہیں متعدد بار جیل بھیجا گیا۔ پریس ڈیکلریشن منسوخ کیے گئے، پرنٹنگ مشینز تک ضبط کرلی گئیں تاہم ان کی آواز کو دبایا نہ جاسکا۔ 1953 میں ان کے صاحبزادے اختر علی خان زمیندار کے مدیر تھے، جب ڈیکلریشن منسوخ ہونے پر اس تاریخ ساز اخبار کا سفر تمام ہوا۔
مولانا نے سیاسی جدوجہد میں زندگی کے 14 برس جیل میں گزارے
مولانا ظفر علی خان علی گڑھ یونیورسٹی کے اولین گرایجویٹس میں سے تھے۔ چاہتے تو انڈین سروس میں اعلیٰ عہدہ حاصل کر سکتے تھے لیکن انہوں نے آزادی کے مشن کی تکمیل کے لیے زندگی وقف کردی تھی۔ تحریکِ آزادی اور تحریکِ پاکستان کے ہراول دستے میں شامل تھے۔ انہیں تحریک پاکستان کا لافانی کردار کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔ مولانا جوہر علی خان کے ہمراہ تحریکِ خلافت کا حصہ بھی رہے۔ مولانا ظفرعلی خان نے شہید گنج مسجد لاہور کوگردوارہ بنانے کے خلاف نیلی پوش تحریک چلائی اور اپنی شاعری کےذریعے اس المناک واقعہ پر شدید تنقید کی۔ وہ تحریکِ ختمِ نبوت کے داعی بھی تھے۔
30 دسمبر 1906 کو مولانا ظفر علی خان نے آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس میں شرکت کی۔ جس میں فیصلہ کیا گیا کہ مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے سیاسی جماعت بنائی جائے جس کا نام ’آل انڈیا مسلم لیگ‘ رکھا جائے گا۔ 1946 لاہور سے بھاری اکثریت سے مرکزی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ مولانا نے سیاسی جدوجہد میں زندگی کے 14 برس جیل میں گزارے۔
‘خدا کی حمد، پیغبرﷺ کی مدح، اسلام کے قصے’
خدا کی حمد، پیغبرﷺ کی مدح، اسلام کے قصے
مرے مضموں ہیں جب سے شعر کہنے کا شعور آیا
مولانا ظفرعلی خان کے والد مولانا سراج الدین احمد خان اور دادا کرم الہیٰ خان اپنے وقت کے بڑے عالم اور پڑھی لکھی شخصیات تھے۔ دادا کرم الہیٰ خان سیالکوٹ مشن سکول کے ہیڈ ماسٹر بھی رہے تھے۔ ان کا خاندان ادب و تعلیم میں شہرت کا حامل تھا۔ مولانا کے چھوٹے بھائی پروفیسر حمید احمد خان پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے ہیں۔
مولانا ظفرعلی خان کو عربی، فارسی اور انگریزی زبان پر کامل دسترس حاصل تھی۔ بمبئی قیام کے دوران ’السٹریٹڈ ویکلی‘ اور ’ٹائمز آف انڈیا‘ میں بھی مختلف موضوعات پر کئی سیر حاصل مقالات لکھے۔
حیدرآباد قیام کے دوران انگریزی زبان کی متعدد شاہکار کتابوں کا اردو زبان میں ترجمہ کیا۔ 1901 میں 28 برس کی عمر میں رڈیارڈ کپلنگ کی کتاب ’جنگل بک‘ کا ’جنگل میں منگل‘ کے نام سے پہلا اردو ترجمہ کیا۔ ’دکن ریویو‘ اور ماہانہ ’افسانہ‘ بھی جاری کیے۔ شبلی نعمانی کیا کتاب ’الفاروق‘ کا ’عمر دی گریٹ‘ کے نام سے’ انگریزی ترجمہ بھی کیا۔ مولانا کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کے یہ نعتیہ اشعار آج بھی زبان زد عام ہیں۔
وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
اک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں
جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا
وہ راز اک کملی والے نے بتلادیا چند اشاروں میں
’کمال اتا ترک نے جو کام تلوار سے کیا، مولانا نے وہی کام قلم سے کیا‘
علامہ محمد اقبال نے کہا تھا کہ ’ظفر علی خان کا قلم اپنی روانی میں بڑے بڑے مجاہدین سے کم نہیں۔ کمال اتا ترک نے ترکوں کو جگانے کے لئے جو کام تلوار سے کیا۔ مولانا نے وہی کام قلم کے ذریعے مسلمانوں کے لیے کیا۔‘
مہاتماگاندھی نے کہا تھا کہ ’میں مولانا ظفر علی خان کی عزت کرتا ہوں۔ ظفر علی خان نے آزادی اور امن کی آواز بلند کی ہے۔ وہ اپنی دھن کے پکے ہیں۔ ہمیں ان سے ناراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ دیش کے لیے انہوں نے بڑی گھٹنائیں سہی ہیں۔‘
مولانا محمد علی جوہر نے کہا تھا کہ ’اردو صحافت کی خوش قسمتی ہے کہ ایک تعلیم یافتہ، باصلاحیت ظفر علی خان اس کو ملا۔ ظفر علی خان صحافی سے زیادہ ادیب ہیں اور ان کے کلام میں جو تلخی ہے وہ سیاست کی ہے اور جو چاشنی ہے وہ ادب کی ہے۔‘
پنڈت جواہر لال نہرو کہتے تھے ’یہ درست ہے کہ ہمارے بہت سے ساتھی سیاسیات میں مختلف راستہ اختیار کرتے چلے گئے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا ظفر علی خان انگریز کی غیر ملکی حکومت کے خلاف ہندوستان کی للکار ہے۔‘