چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قیادت میں قائم ایک 3 رکنی بینچ نے گزشتہ ہفتے ایک قتل کیس کی سماعت کے دوران رولنگ دی کہ آئندہ کسی عہدیدار کے ساتھ صاحب کا لاحقہ نہ لگایا جائے۔ یہ مسئلہ تب زیرِ غور آیا جب ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے اپنی معروضات میں ایک ڈپٹی سپرنٹینڈینٹ پولیس کو ڈی ایس پی صاحب کہہ کر مخاطب کیا۔
چیف جسٹس صاحب نے حکم دیا کہ آئندہ کسی عہدے کے ساتھ صاحب نہ لکھا جائے۔ کیونکہ سرکاری عہدیدار کے ساتھ صاحب لگانے سے اس کے رتبے میں نہ صرف غیر ضروری اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اس خبط میں بھی مبتلا ہو سکتا ہے کہ وہ پبلک سرونٹ کے بجائے جوابدہی و احتساب سے بالا کوئی خاص شخصیت ہے۔
برصغیر کے نوآبادیاتی دور میں مسٹر یا ماسٹر کے متبادل کے طور پر مقامی آدمی اپنے سے بالا سماجی و اختیاراتی حیثیت کے حامل عہدیدار بالخصوص گورا شاہی کے ساتھ یہ لاحقہ لگاتا تھا۔ آزادی کے بعد سے آج تک نوآبادیاتی جہیز میں ملی جن اصلاحات و لفظیات کو گلے سے لگا کے رکھا گیا ان میں صاحب کا تحفہ بھی شامل ہے۔
میرا اور چیف جسٹس کا تعلق جس پیڑھی سے ہے اسے سرکاری تعلیمی نصاب میں درخواست لکھنے کا جو طریقہ سکھایا گیا آج نصف صدی بعد اسے یاد کر کے دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے دل و دماغ پر ان نصاب سازوں اور اساتذہ کا قبضہ رہا جو بذاتِ خود ذہنی طور پر نوآبادیاتی دور کو اپنے ڈی این اے سے نہ نکال پائے۔ جو ہمیں سکھایا پڑھایا گیا اس کا ایک نمونہ نئی نسل کے لیے پیشِ خدمت ہے۔
بخدمت جناب ہیڈ ماسٹر صاحب
بصد ادب و نیاز مندی گزارش ہے کہ فدوی کو ایک ذاتی کام کے سلسلے میں 2 روز کی چھٹی مرحمت فرمائی جائے۔ تابعدار وسعت اللہ خان۔
یہی ’بخدمت جناب ہیڈ ماسٹر صاحب‘ عملی زندگی میں ’بخدمت جناب ایس ایچ او صاحب، پٹواری صاحب، سینیٹری انسپکٹر صاحب، کونسلر صاحب‘ وغیرہ وغیرہ میں ڈھلتا چلا گیا۔
اور پھر مسٹر، سر، ماسٹر اور صاحب کے غلامانہ لاحقوں سے بیزار ہمارے علماِ کرام نے اسے خطیب ِ اہلِ سنت، قائدِ بے بدل، شان مشرق حضرت مولانا مفتی شمس الدین صاحب مدظلہہ کے سابقے لاحقے لاد کے نیکسٹ لیول تک پہنچا دیا ۔
ان کی دیکھا دیکھی پوشیدہ امراض کے ماہر، لقمانِ عصر، حکیم مولوی مولانا مرزا ماہر بیگ ماہر نوشتہِ دیوار بنتے چلے گئے۔ حتیٰ کہ ان گناہ گار آنکھوں نے ایک بورڈ پر یہ بھی لکھا دیکھا۔’مطب قبلہ بڑے حکیم صاحب‘۔
’یہاں طبِ یونانی کے پشتینی نسخوں سے بواسیر اور دیگر امراضِ چشم کا تیربہدف تسلی بخش علاج ہوتا ہے۔ فیس شفایابی کے بعد ادا کی جائے‘۔
چیف جسٹس کا حکم سر آنکھوں پر مگر لوگ بھی بڑے تیز ہیں۔ وہ ڈی ایس پی صاحب نہ لکھیں گے تو قبلہ محترم جناب ڈی ایس پی لکھیں گے۔ افسرشاہی کی تربیت ہی اسی طرح کی گئی ہے کہ وہ خدمت گزار نہیں بلکہ عام آدمی کو سائل سمجھ کے بنیادی حقوق و سہولیات عطا کرنے والی کوئی برگزیدہ مخلوق ہے۔
شاہ کا نوکر اور مصاحب خود کو خادمِ عوام سمجھنے کے بجائے مخدومِ عوام محسوس کرتا ہے۔ ایک سادہ شہری اور رعیت کو ایک ہی شے تصور کرتے ہوئے خود کو دانا اور سائل کو دانہ سمجھتا ہے۔ اور آپ تو جانتے ہیں کہ دانہ اپنی ہستی مٹا کے خاک میں مل کر ہی گل و گلزار ہوتا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اگرچہ گورے نے مقامی کالے کو اوقات میں رکھنے کے لیے اپنے مرتبے کے ساتھ صاحب کے اضافے کو برصغیر میں پسند فرمایا۔ مگر آج آپ کسی بھی انگریز کے نام کے ساتھ ماسٹر یا مسٹر لگا کے دیکھیں۔ اس کے چہرے کے تاثرات آپ سے پوچھ رہے ہوں گے بھائی تم کس سیارے سے آئے ہو۔
بی بی سی بش ہاؤس میں رہتے ہوئے مجھے کبھی خیال نہ آیا کہ اپنے باس کے نام کے ساتھ کوئی لاحقہ ٹانکنا ضروری ہے۔ بیری لینگریج جب تک سیکشن ہیڈ کی کرسی پر رہا خود کو اپنے نام کے پہلے حصے کی مناسبت سے بیری کہلوانا ہی پسند کرتا رہا۔
مگر ہم مشرقی لوگ چونکہ روایات سینت سینت کے رکھنے کے عادی ہیں لہذا آباؤ اجداد کی نوآبادیاتی وراثت کو بھی بزرگوں کی نشانی سمجھ کے سینے سے چمٹائے ہوئے ہیں۔
سپریم کورٹ کا آدیش سر آنکھوں پر۔ مگر ایسے اشعار کے لیے کیا حکم ہے حضورِ والا کا۔
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
(غالب)