انتخابات کا فریب؟

ہفتہ 2 دسمبر 2023
author image

ثنا ارشد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کھیل کوئی بھی ہو طاقت کے بل بوتے پر نہیں بلکہ ذہانت، مہارت اور ہوشیاری سے کھیلا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں سب سے مقبول کھیل سیاست کا کھیل ہے۔ یہ خلائی مخلوق کا وہ کھیل ہے جوطاقت سے زیادہ ذہانت سے کھیلا جاتا ہے۔ یہ الگ بات کہ یہ اکثر اوقات خوش فہمی ہی ثابت ہوتی ہے۔ لیکن کھیل میں حصہ لینے والے سوچتے ہیں کہ میدان کیسے سجایا جانا ہے، کس کے حق اور کس کی مخالفت میں ہوائیں کیسے چلانی ہیں؟

ذہانت کے اسی کھیل نے ہمارے زوال کی کئی داستانیں قلمبند کیں۔ پھر چاہے وہ حکومتوں کی تبدیلی کی داستانیں ہوں، سینیٹ کے انتخابات ہوں، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب ہو۔ نئے سیاسی دھڑوں کی تشکیل ہو یا نئی جماعتوں کے قیام۔ اس کھیل میں ایسا کوئی محاذ نہیں جس پر زور آزمائی نہ کی گئی ہو۔ خلائی مخلوق کے اشارے کے ساتھ ہی دوسری جماعتوں سے آئے ہوئے پرندے اُڑ جاتے ہیں۔ حریف شریک میں بدل جاتے ہیں اور مقبول ترین جماعت کا دھڑن تختہ الٹ کر کامیابی سے زوال کی منازل طے کردی جاتی ہے اور ملک کو اس نہج پر پہنچادیا جاتا ہے کہ عوام کا جینا محال ہو۔

یہی کھیل  پھر سے کھیلا جا رہا ہے، بگڑےحالات کو ایک بار پھر درست راہ پر ڈالنے کے لیے ذہانت کا استعمال کیا گیا، پرانےکھلاڑی سے بلا واپس لےلیا گیا اور اسے میدان سے باہر کرنے کے بعد انتخابات کی نئی پچ تیار کی گئی۔ جس کا اعلان تو ہو چکا ہے لیکن کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں۔ وہ بھی سرگوشیوں میں پوچھتے نظر آتے ہیں جو اس میدان میں اُترنے کو ہیں کہ کیا واقعی کھیل کا وقت قریب ہے یا یہ سب فریب ہے؟

اس بار اس سب کا مرکزی کردار مقبول ترین عمران خان نہیں بلکہ وہ نواز شریف ہیں جو ہر بار ناقابلِ اعتبار ٹھہرے۔ اس بار نواز شریف نے بادشاہ کو اپنے تابع کرلیا۔ اسی لیے خلائی مخلوق نے دوبارہ ان کو اقتدار کا حصہ بنانے کی ٹھانی۔ ایون فیلڈ اور فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت سے سیاسی راہ کی کچھ رکاوٹیں تو دور ہوگئیں۔ العزیزیہ ریفرنس سے بریت کا پروانہ بھی جلد ان کے ہاتھ میں ہوگا اور اس کے بعد بظاہر وزیراعظم کی کرسی ان سے چند قدم کے فاصلے پر ہوگی۔ جس پر دیگر جماعتیں اور بالخصوص پیپلز پارٹی شکوہ کناں ہے جو اپنے تئیں کسی نہ کسی طرح خلائی مخلوق کو اپنا گرویدہ بنانے کے لیے جال بن رہی ہے ۔

دوسری طرف تحریک انصاف ہے جو یہ شکوہ کرتی نظر آتی ہے کہ اس وقت جو کچھ سیاسی اور قانونی محاذ پر اس کے خلاف ہورہا ہے وہ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی پر مبنی سازش ہےاور اسے الیکشن سے آؤٹ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ تحریک انصاف چاہتی ہے کہ ساری غلطیاں بھلا کر ایک بار پھر اسے ”سلیکٹ“ کرلیا جائے۔ اور اس کے لیے وہ سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہےلیکن فیصلہ تو ہو چکا، انتظار ہے تو بس انتخابات کا جس کے اعلان کے باوجود ابھی تک ابہام موجود ہے۔ سب اسی کشمکش میں ہیں کہ انتخابات8 فروری کو ہو بھی سکیں گے یا نہیں ۔

پاکستان میں انتخابات ہو ں اور سازش نہ ہو یہ ہو نہیں سکتا۔ ہر بار کھیل اور اس کے اصول منفرد ہوتے ہیں۔ نِت نئے طریقے ایجاد ہوتے ہیں۔ کبھی آرٹی ایس کا سہارا لیا جاتا ہے تو کبھی دھند کی لپیٹ میں سب غائب کر دیا جاتا ہے۔ اس بار بھی انتخابات سے قبل بے یقینی کی سی صورتحال ہے۔ اسی لیے الیکشن کمیشن کی یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان میں انتخابات میں تاخیر کی افواہیں گردش کرنے لگی ہیں۔ ایک انجانا سا خوف ہے کہ نہ جانے کب کیا ہو جائے ۔

حالات تا حال گو مگو کا شکار ہیں ۔انتخابات کے نتائج سے قبل ہی تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی تحفظات پیش کر رہے ہیں کہ پسِ پردہ قوتوں نے ان کا راستہ روکنے کے لیے مخالفین سے گٹھ جوڑ کرلیا ہے۔ چند حلقوں کا کہنا ہے کہ معیشت چونکہ اپنی ڈگر پر چلتی نظر آ رہی ہے، اس لیے انتخابات میں التوا بہتر ہے جبکہ سیاسی حریف اس بات پر مصر ہیں کہ انتخابات خلائی مخلوق کرائے گی اور مرضی کے نتائج حاصل کرے گی اس لیے وہ درست وقت کے انتظار میں ہے۔

سیاست خلائی مخلوق کے کھیل سے جڑی ہوئی ہے جس نے میدان سجایا ہے۔ کھلاڑی بھی میدان میں اتار دیےہیں۔ تمام کھلاڑی اقتدار کے خواہشمند ہیں لیکن آخری فیصلہ تو خلائی مخلوق کا ہی ہوگا جس نے فی الحال مرکزی کرداروں کی پوزیشنز واضح کر دی ہیں۔ اسی لیےوہ انتہائی خود اعتماد ی سے کھیل رہے ہیں۔ لیکن ان کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پیشانیوں پر تو ہمارے زوال کی داستانیں بھی قلمبند ہیں۔ اسی لیے کھیل محتاط انداز سے کھیلا جائے کیونکہ جب کھیل ختم ہو جائے تو بادشاہ اور پیادے ایک ہی ڈبے میں چلے جاتے ہیں اور اس کے تابع ہو جاتے ہیں جو اس کھیل کو دماغ سے جیتتا ہے ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp