ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس کے درخواست گزار احمد رضا قصوری نے کہا ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کو عدالتی قتل نہیں مانتے، عدالت کا فیصلہ درست تھا، لاہور ہائیکورٹ کے 5 رکنی بینچ نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا متفقہ فیصلہ دیا تھا جس کے بعد نظرثانی اپیل پر سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے 4-3 کے تناسب سے یہ فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
وی نیوز سے خصوصی گفتگو میں ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق احمد رضا قصوری نے کہا کہ وہ ابھی اس حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ابھی تو یہی طے ہونا ہے کہ عدالت اس معاملے پر سماعت کا اختیار رکھتی ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ایک ایسا معاملہ جس کا فیصلہ دیا جاچکا ہو اور اس معاملے میں اپیل کے لیے آرٹیکل 185 اور نظر ثانی کے آرٹیکل 188 کا استعمال کیا جارہا ہو تو کیا اس کے بعد ریفرنس ہوسکتا ہے یا نہیں۔
مزید پڑھیں
جسٹس نسیم حسن شاہ کے اعتراف سے متعلق انہوں نے کہا کہ اپنے تحریری جواب میں انہوں نے جسٹس نسیم حسن شاہ کی کتاب اور ان کے بیانات شامل کیے ہیں اور وقت آنے پر وہ ثابت کریں گے کہ اگر آدمی میں دم خم نہ ہو تو وہ اسی طرح کے بیانات دیتا ہے۔
’ الیکشن جیتنے کے لیے یہ کھیل کھیلا جارہا ہے‘
انہوں نے کہا کہ انتخابات کا وقت ہے اور پیپلز پارٹی کا مقصد ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت یا خود پر لگے داغ مٹانا نہیں بلکہ بھٹو کے نام پر انتخابات جیتنے کے لیے یہ کھیل کھیلا جارہا ہے۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ وہ عدالت سے ذاتی طور پر درخواست کریں گے کہ اس کیس پر انتخابات کے بعد سماعت کی جائے۔
’بھٹو عمران خان سے زیادہ سمجھدار اور اہل تھے‘
ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان کے درمیان موازنہ سے متعلق انہوں نے کہا کہ دونوں شخصیات کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے لیکن ذوالفقار علی بھٹو زیادہ قابل اور سمجھدار تھے اور اگر سیاست کی بات کی جائے تو وہ ایک ٹیکنوکریٹ تھے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان ایک عوامی لیڈر ہیں مگر ان میں وہ سیاسی اہلیت نہیں تھی جو ذوالفقار علی بھٹو میں تھی۔
’بھٹو میرے دوست تھے‘
انہوں نے کہا، ’بھٹو میرے مخالف تھے مگر میں اپنی رائے ایمانداری سے دیتا ہوں، میرا بھٹو کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں تھا، پیپلز پارٹی کا جنم میرے گھر سے ہوا، میں نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی، میں خود ایک طاقتور لیڈر تھا۔‘
احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت بھی ملک میں جمہوریت کے لیے جدوجہد میں مصروف تھے جس وقت ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب خان کے ماتحت تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی بھٹو کے ساتھ دوستی تھی، وہ 28 سال کی عمر میں پیپلز پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے ممبر بنے، 30 سال کی عمر میں وہ اسمبلی کے رکن بنے اور 31 سال کی عمر میں انہیں ’نشان پیپلز پارٹی ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔