ایک دن بجھنے والے دو چراغ

منگل 26 دسمبر 2023
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

شعری اُفق کے دو ستارے منیر نیازی اور پروین شاکر ایک ہی دن ہم سے جدا ہوئے۔ سال بے شک مختلف ہے مگر دن ایک ہی ہے 26 دسمبر۔ منیر نیازی تو زندگی کی 83 بہاریں دیکھ کر دنیا سے رُخصت ہوئے مگر پروین شاکر محض 42 سال کی عمر میں ایک حادثے کی نذر ہو گئیں۔

موت بھی کیسی درد ناک حقیقت ہے کہ تمام طا قتوں کے باوجود انسان اس کے

آگے بے بس ہے۔ منیر نیازی نے ہی کہا تھا نا

ایڈیاں دَردی اکھاں دے وچ
ہنجو بھرن نہ دیواں
وَس چلے تے ایس جہان وچ
کسے نوں مرن نہ دیواں

مگر موت کے آگے کہاں کسی کا بس چلتا ہے۔ پروین شاکر ان خوش قسمت لوگوں میں سے تھیں جن کی شہرت نوجوانی میں ہی چہار دانگِ عالم پھیل چُکی تھی۔

انھوں نے ایم اے انگریزی کر رکھا تھا او ر کراچی کے ایک کالج میں پڑھاتی تھیں۔ 24 سال کی عمر میں ان کا پہلا شعری مجموعہ “خوشبو ” شائع ہوا۔ چند سال بعد جب وہ سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھیں تو پیپر میں انھی کے فکر و فن کے حوالے سے سوال آیا۔

جب اسلام آباد میں ایف سیون کے پروین شاکر روڈ سے گزر ہوتا ہے تو خیال آتا ہے کہ یہاں کیسے حادثہ ہو سکتا ہے۔ شہروں میں بڑی شاہراہوں کی نسبت کم ہی حادثات ہوتے ہیں۔ آج جب اسلام آباد کی آبادی 1994 کی نسبت کئی گُنا بڑھ چُکی ہے تب بھی سڑکوں پر شہر میں حادثات کا تناسب کم ہی ہے۔ ویسے بھی اسلام آباد کے ڈرائیور کسی حد تک مہذب ہی سمجھے جاتے ہیں۔

بہرحال ہونی ہو کر رہتی ہے۔ دسمبر کے ایک ستم گر دن اردو شاعری کی توانا آواز ہم سے ایک حادثے کی بنا پر جدا ہوگئیں۔

اردو شاعری میں کشور ناہید، فہمیدہ ریاض اور سارہ شگفتہ جیسی شاعرات پروین سے پہلے اپنا نام بنا چُکی تھیں۔ مگر پروین نے اپنی ایک علیحدہ شناخت بنائی۔ آج اگر اردو شاعری میں کوئی ایک نام منتخب کرنا پڑے تو بلا مبالغہ وہ نام پروین شاکر کا ہوگا۔

پروین شاکر کی سب سے بڑی خوبی یہ کہ ان کے ہاں جذبات کی گہرائی بھی ہے اور خیال کی پختگی بھی۔ وہ ایک جُرأت مند تخلیق کار ہیں جو جذبات کا اظہار بھی بہت سنبھل کر کرنا جانتی ہے۔ ان کے ہا ں عامیانہ پن نہیں جھلکتا۔

بلا شبہ اردو ادب میں وہ اپنی طرز کی پہلی خاتون شاعرہ تھیں جنھیں اردو کے بڑے شعراء میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے ابھی تک کوئی دوسرا ، ان کے اس مقام کو نہیں پہنچ سکا۔

پروین شاکر کی لکھی ہوئی غزل “کو بہ کو پھیل گئی بات شنا سائی کی”شہنشاہِ غزل مہدی حسن نے کمال فنی گہرائی سے گا کر امر کر دی ہے۔ اس غزل کا ایک ایک شعر فنی گہرائی اورنسائی جذبوں کا غماز ہے۔ پروین شاکر کی ساری شاعری اسی طرح ایک مضبوط تاثر لیے ہوئے ہے۔

ان کو اپنے مداحوں سے بچھڑے ہوئے تین دہایاں ہونے کو ہیں مگر آج بھی ان کے بچھڑنے کا غم تازہ ہے۔ وہ آج بھی اسی طرح مقبول شاعرہ ہیں جس طرح اپنی زندگی میں تھیں۔

منفرد لب و لہجے کے شاعر منیر نیازی 26 دسمبر 2006 کو اپنے مداحوں سے بچھڑے۔ منیر نیازی جس عہد میں نمایا ں ہوئے وہ ہر میدان کے بڑے لوگوں کا عہد تھا۔ شاعری میں ایک سے بڑھ کر ایک شاعر تھا۔ مگر منیر نیازی ہجوم میں گُم نہیں ہوئے انھوں نے اردو اور پنجابی شاعری میں اپنا علیحدہ اسلوب اور رنگ ڈھنگ وضع کیا۔ ان کے کئی شعر ضرب المثل کی شکل اختیار کر چُکے ہیں۔ ایک شعر میں ہی ایسی گہری بات کر جاتے ہیں کہ بندہ سوچتا رہ جاتا ہے کہ ایسا بلند خیال انھیں کیسے سوجھا۔

میری ساری زندگی کو بے ثمر اُس نے کیا

عمر میری تھی مگر اس کو بسر اُس نے کیا

اسی غزل کے دوسرے شعر دیکھیے کہ منیر کے ہاں تخلیقی وفور کس درجے کا ہے۔

میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد

پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا

راہبر میرا بنا گمراہ کرنے کے لیے

مجھ کو سیدھے راستے سے در بہ در اس نے کیا

شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا

پھر مجھے اس شہر میں نا معتبر اس نے کیا

شہر کو برباد کر کے رکھ دیا اس نے منیرؔ

شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا

منیر نیازی کی پوری زندگی کامیابوں سے بھری ہوئی ہے۔ انھوں نے فلمی گیت لکھے تو دھوم مچا دی۔

اُس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو

جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا

جس نے میرے دل کو درد دیا

کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آجاتے ہیں

زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا ہے

منیر نیازی نے غزل کےمیدان میں بھی اپنے منفرد اسلوب سے اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔ ان کے بعض شعر اپنے اندر پوری تاریخ سموئے ہوئے ہیں۔ رومان اور شعو ر کا جو ملاپ ہے وہ خال ہی کہیں اور نظر آتا ہے۔

منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے

کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

اسی طرح ایک اور شعر دیکھیں

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا

نہ مشکل الفاظ نہ ثقیل انداز مگر گہری بات کرنے میں منیر نیازی اپنا ثانی نہیں رکھتے

آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے

ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیر

ایک بار دل تو دھڑکامگر پھر سنھبل گیا

محبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعد ہوگی

گزر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہوگی

منیر نیازی نے نظم میں بھی ایسی زور دار اور فنی طور پر پُختہ نظمیں لکھیں ہیں کہ بار بار پڑھنے سے بھی دل نہیں بھرتا اور ان نظموں کی تازگی برقرار رہتی ہے۔

ایک نظم دیکھئے

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں

ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو

اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

مدد کرنی ہو اس کی یار کی ڈھارس بندھانا ہو

بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو

کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو

حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں۔

منیر نیازی کی پنجابی شاعری بھی اسی طرح اپنے ہاں ایک نویکلا پن لیے ہوئے ہے۔ جہاں جذبوں کی گہرائی اور شدت پوری طرح موجود ہے۔

کجھ انج وی راہواں اوکھیاں سن

کجھ گل وچ غماں دا طوق وی سی

کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن

کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی

منیر نیازی کی تین لائنوں کی ایک نظم دیکھیں کتنا بھر پور تاثر لیے ہوئے ہے۔

”شہر دے مکان”

اپنے ای ڈر توں

جُڑے ہوئے نیں

اک دوجے دے نال

منیر نیازی در اصل ایک پورے عہد کا نام ہے۔ پروین شاکر اور منیر نیازی کا مختلف برسوں میں ایک ہی دن 26 دسمبر کو دنیا سے کوچ کرنا شعر و ادب کے چاہنے والوں کو تادیر یاد رہے گا۔ وہ اپنے فن کی وجہ سے اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp