پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے الیکشن کمشین کے فیصلے کو معطل کر دیا۔ فیصلہ معطلی کے بعد پی ٹی آئی کو بلے کا نشان دوبارہ مل گیا۔ پشاور ہائیکورٹ نے فرقین کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کردیا۔
پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست پر حکم امتناعی بھی جاری کیا، جس کے بعد پشاور ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی جانب سے بلے کے نشان کو واپس لینے کے فیصلے کو آئندہ سماعت تک معطل کر دیا جبکہ کیس کی سماعت عدالتی چھیٹوں کے بعد ڈیثرون بینج کرے گا۔
آج صبح پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا، پی ٹی آئی کی جانب سے بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر علی ظفر نے درخواست دائر کی جس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے اور آج ہی سماعت کرنے کی استدعا کی گئی تھی جس پر پشاور ہائیکورٹ نے آج ہی درخواست سماعت کے لیے مقرر کردی۔
بیرسٹر علی ظفر کے دلائل
پشاور ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت شروع ہوئی، بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا انٹراپارٹی انتخابات کے حوالے سے فیصلہ اسکا اختیارہی نہیں ہے، قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کو تمام تر دستاویزات فراہم کردی گئی ہیں، الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کا پہلا بڑا نقصان پی ٹی آئی کو بلا نشان نہیں مل سکے گا۔
مزید پڑھیں
انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے پی ٹی آئی 8 فروری کے انتخابات میں حصہ بھی نہیں لے سکے گی، نشان کے بغیر ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت انتخابات سے باہرکی گئی، الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے، پارٹی کے ساتھ ایسا سلوک کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو پارٹی کی اندرونی تقریروں پر فیصلے کا اختیار نہیں ہے، الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق پارٹی ہیڈ 7 دن بعد سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن کو فراہم کرتا ہے، الیکشن کمیشن ایک پوسٹ آفس ہے جہاں پارٹی اپنے قانونی دستاویزات جمع کرواتی ہیں، اگر پارٹی سرٹیفکیٹ فراہم کر دے تو پھر الیکشن کمیشن کا اختیار بنتا ہے۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن ایکٹ میں یہ کہی نہیں لکھا کہ الیکشن کمیشن از خود نوٹس لے کر تقریروں کو جواز بنا کر انتخابات کالعدم کریں اور نشان بھی واپیس لے، قانون بنانے والوں نے الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیا ہی نہیں ہے، سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کو کہہ چکی کہ وہ کوئی کورٹ آف لا نہیں ہے۔
جسٹس کامران حیات کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ
جسٹس کامران حیات میاں خیل نے استفسار کیا کہ یہ تو الیکشن کمیشن ایک پارٹی کو الیکشن سے باہر کررہا ہے، اگر عدالت کل اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ الیکشن کمیشن کا آرڈر ٹھیک نہیں تو پھر کیا ہوگا۔ یہاں تو یہ نظر آرہا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو الیکشن سے باہر کیا جارہا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ چھٹیاں ہیں اس کیس کو چھٹیوں کے بعد سا جائے، عدالت نے ایڈشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں کہ پاکستان میں کتنی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ 175 پارٹیاں ہیں۔
جسٹس کامران میاں خیل نے کہا کہ کسی اور پارٹی کو نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب آپ لوگ آئے ہیں ہم نے آپ کو سنا، اب تو کچھ کرنا ہوگا۔ اگر آپ نہ آتے تو ہوسکتا ہے ہم اس کو 2 جنوری کو جو بھی ڈویژن بینچ ہوتا اس کو بھیج دیتے۔
انہون نے مزید کہا کہ پارٹی امیدواروں کو کب تک ٹکٹ جاری کرتا ہے اس کی آخری تاریخ کیا ہے۔ اگر پارٹی سے انتخابی نشان لیا جائے تو پھر کیا رہ جاتا ہے، اور اگر مسلم لیگ سے شیر، پیپلزپارٹی سے تیر اور جے یو آئی سے کتاب واپس لیا جائے تو کیا ہوگا۔
بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر علی ظفر نے درخواست دائر کی
اس سے قبل تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر خان اور بیرسٹر علی ظفر پشاور ہائیکورٹ پہنچے جہاں انہوں نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی۔ درخواست میں الیکشن کمیشن اور انٹرا پارٹی الیکشن کو چیلنج کرنے والوں کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔ عدالت نے پی ٹی آئی کی استدعا منظور کرتے ہوئے آج ہی سماعت کرنے کا فیصلہ کیا۔
دائر کردہ درخواست کے متن کے مطابق جن لوگوں نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کو چیلنج کیا ہے وہ پارٹی ممبر ہی نہیں ہیں، الیکشن کمیشن کو پارٹی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے طریقے سے متعلق فیصلہ دینے کا اختیار ہی نہیں ہے۔
پی ٹی آئی نے درخواست کے ذریعے عدالت سے استدعا کی ہے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دے کر بلے کا نشان واپس لے لیا ہے، عدالت سینئر ججز پر مشتمل بینچ بنائے اور آج ہی سماعت کے لیے مقرر کرے۔
واضح رہے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیتے ہوئے پارٹی انتخابی نشان واپس لے لیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن قانونی طریقہ کار کے مطابق کروانے میں ناکام رہی اور انتخابی نشان رکھنے کی اہلیت کھوچکی ہے۔ جس ہر پاکستان تحریک انصاف نے عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن امیدواروں کی انتخابی نشانات کے ساتھ حتمی فہرست 13 جنوری کو شائع کرے گی، پی ٹی آئی کے پاس 13 جنوری سے قبل عدلات سے ریلیف لینے یا کوئی اور حکمت عملی اپنانے کا وقت موجود ہے۔