پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں مسلسل شدید مندی دیکھی جا رہی ہے، مسلسل 3 دن کی چھٹیوں کے بعد اسٹاک ایکسچینج کا آغاز ریڈ زون سے ہوا سال کے اختتام اور نئی حکومت کے پریشر سے سرمایہ کار شیئرز کو فروخت کرنے لگے ہیں، جس کی وجہ سے اسٹاک ایکسچینج میں ہنڈریڈ انڈیکس دوران ٹریڈنگ 1700 سے زائد پوائنٹس مائنس ہوئے ہیں۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ہنڈریڈ انڈیکس 61 ہزار 600 کی نفسیاتی حد سے گر کر 59 ہزار کی حد پر ٹریڈ ہو رہے ہیں جبکہ رواں ماہ ہنڈریڈ انڈیکس 67 ہزار کی بلند ترین سطح کو عبور کرگئے تھے۔ تاہم اسٹاک ایکسچینج ہنڈریڈ انڈیکس منفی 2 سے 3 فیصد کے درمیان ٹریڈ ہورہا ہے۔
مزید پڑھیں
معاشی ماہر محسن مسیڈیا کے مطابق جب سے عام انتخابات کی تارخ سامنے آئی ہے اسکے بعد سے مارکیٹ میں مندی دیکھنے میں آرہی ہے انکا کہنا ہے کہ جب بھی انتخابات ہوتے ہیں اس دوران مارکیٹ سلو ہوجاتی ہے اور سرمایہ کار محتاط ہوجاتے ہیں اور اپنا سرمایہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ آنے والی حکومت کی پالیسی کا انتظار کرتے ہیں۔
محسن مسیڈیا کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ میں اسٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ کارکردگی کی وجہ اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے اب ظاہر ہے سرمایہ کار آگے کا دیکھ رہا ہے اور اپنا سرمایہ بچا کر نئی حکومت کے آنے کا انتظار کر رہا ہے۔
انکے مطابق یہ ہر جگہ ہوتا ہے اور پاکستان میں آنے والی حکومت اس بات کا تعین کرے گی کہ اسکی پالسی سرمایہ کار دوست کی ہے یا پھر مخالف اسی صورت میں ہماری معیشت اپنی کارکردگی کے پیمانے ظاہر کرے گی۔
معاشی ماہر شہریار بٹ کے مطابق انتخابات کی تاریخ آنا ایک بڑی وجہ ہے اسٹاک ایکسچینج میں مندی کی، انکا کہنا ہے کہ نگراں حکومت نے آزادی سے کام کیا ان پر کوئی سیاسی دباؤ نہیں تھا اور اگر کوئی سیاسی حکومت آتی ہے تو وہ سیاسی ایجنڈے کے تحت مجبور ہوتی ہے اسی بنیاد پر وہ اپنا معاشی ایجنڈا آگے بڑھاتی ہے۔
’سیاسی دور میں بہت ساری مجبوریاں ہوتی ہے جس کی وجہ سے بڑے گول حاصل نہیں کر پاتے۔‘
شہریار بٹ کا کہنا ہے کہ ایک اور چیز ہے کہ خسارے والے اداروں کی نجکاری جو کہ اب رک چکی ہے اور انتخابات کے بعد کا بھی کوئی پتہ نہیں کہ وہ ہوتے ہیں یا نہیں۔ یہ تعین نئی حکومت کی معاشی پالیسی پر منحصر ہے اور سرمایہ کار بھی اسی کو مدنظر رکھ کر سرمایہ کاری کرنے یا سرمایہ نکالنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔