امریکی ریاست ایریزونا کے صدر مقام فینکس کے رہائشیوں نے حال ہی میں اپنے محلوں میں کچھ غیر معمولی مہمانوں کی آمد میں اضافہ دیکھا۔ وہ تو شاید اس جانور کو دیکھ کر گھبرائے ہوں یا کم از کم بیزار ہوئے ہوں لیکن وہی اگر ہمارے وطن عزیز میں آجائے تو ہمارے دلدر ہی دور ہوجائیں۔
پہلے ہم غیر ملکی میڈیا کی رپورٹس کی روشنی میں آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ امریکا میں کیا ہوا اور پھر تذکرہ کیا جائے گا کہ ہمارے ہاں کیا ہوسکتا ہے اور پاکستان میں نہ پائے جانے والے یہ ذات شریف بھلا ہیں کون۔
یہ ہے اودبلاؤ یا سگ آبی جسے انگریزی میں ’بیور‘ کہا جاتا ہے اور جس کے بارے میں اسکاٹسڈیل میں ساؤتھ ویسٹ وائلڈ لائف کنزرویشن سینٹر نے اطلاع دی ہے۔ مذکورہ علاقے میں بھی یہ جانور عام طور پر نہیں پایا جاتا بس کسی ذاتی مجبوری کی بنا پر ہی ادھر نکل آیا جبکہ پورے ریاستی جنگل میں بھی یہ خاصی کم تعداد میں ہوتا ہے۔ خیر کنزرویشن سینٹر نے بتایا کہ اسے آرکیڈیا محلے میں اودبلاؤ دیکھے جانے کی اطلاع ملی جس کے لیے ریسکیو ٹیم کو بھیجا گیا جہاں انہوں نے دیکھا کہ اودبلاؤ درختوں کو کترنے میں مشغول ہے۔
کنزرویشن سینٹر میں جانوروں کی دیکھ بھال کے مینیجر کم کار نے ایریزونا ریپبلک کو بتایا کہ جب تک میں وہ پہنچے تب تک اودبلاؤ درخت کا نصف حصہ کتر چکا تھا۔ ریسکیو گروپ کے مطابق یہ تیسرا اودبلاؤ تھا جسے حال ہی میں فینکس اور ٹیمپ میں دیکھا گیا۔
کم کار نے بتایا کہ انہوں نے اس سے پہلے اس علاقے میں کبھی اودبلاؤ نہیں دیکھا۔ جبکہ کنزرویشن سینٹر کے ایک ڈویلپمنٹ مینیجر جیمی ہاس اولیور کا کہنا تھا کہ وہ ایک بہت ہی غیر معمولی نظارہ تھا۔
Beverdam breekt gedeeltelijk door in de Gulp.
De huidige waterstand is net teveel voor de dam. Toch is het goed te zien hoe sterk zo'n dam gemaakt is.#Gulpdal #Gulp #freenature #bever #beverdam #hoogwater pic.twitter.com/ZWVryW1sis
— FREE Nature (@FREE_Nature) February 1, 2021
خیال کیا جاتا ہے کہ صرف 200 کے قریب اودبلاؤ ایریزونا کے جنگل میں رہتے ہیں اور وہ عام طور پر بڑی آبی گزرگاہوں کے قریب کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔
کم کار نے بتایا کہ ممکنہ طور پر اودبلاؤدریا سے نہر میں آگئے ہوں گے اور پھر وہاں خوراک نہ ملنے کے سبب پانی سے باہر نکل کر آبادی میں پہنچ گئے ہوں گے۔
وائلڈ لائف سینٹر نے کہا کہ اس اودبلاؤ کا جانوروں کے ایک ڈاکٹر نے معائنہ کیا اور اس کی صحت اچھی قرار دی لہٰذا اب اسے جلد ہی جنگل میں واپس چھوڑ دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ یوں تو اودبلاؤ عموماً 2 فٹ لمبے ہوتے ہیں لیکن بڑے سائز کے 15 میٹر تک لمبے بھی ہوسکتے ہیں جن کا وزن تقریباً 35 کلوگرام ہوتا ہے۔
ڈیم بنانے والے ننھے انجینیئر
اودبلاؤ نیم آبی مخلوق ہے اور ڈیم، نہریں اور کٹیا بنانے کے لیے مشہور ہے۔ اس کی چوڑی دم ہوتی ہے جس سے یہ چپو کا کام لے سکتا ہے۔ اگر کوئی دشمن دکھائی دے جائے تو یہ اپنی دم پانی میں اس قوت سے مارتا ہے کہ دور دور تک آواز جاتی ہے۔
اودبلاؤ کچھ مدت کے لیے زیر آب چلے جاتے ہیں اور ان کے پنجے جھلی دار ہوتے ہیں جو انہیں تیرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اودبلاؤ کو لدھڑ بھی کہا جاتا ہے اور یہ زمین پر تو نہایت ہی سست دکھائی دیتا ہے لیکن پانی میں اس کی پھرتیاں دیکھنے کے لائق ہوتی ہیں۔
اپنی بستی بسانے کے لیے یہ دریا یا چشمے پر کوئی مناسب جگہ تلاش کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد بڑے چھوٹے درخت کاٹ کر ادھر ڈیم کا پشتہ بنانے کے لیے لے آتے ہیں۔
اودبلاؤ درخت کیسے کاٹتے ہیں؟
اودبلاؤ کے دانتوں میں لوہا موجود ہوتا ہے۔ یہ دانت ساری عمر اگتے رہتے ہیں اور خود بخود تیز بھی ہوتے رہتے ہیں اور اگر یہ جانور کاٹ کھانے پر اتر آئے تو پھر کسی کو نہیں بخشتا۔ یہ ان 4 لوہے کے دانتوں کی مدد سے بڑے سے بڑا درخت دیکھتے ہی دیکھتے گرا سکتا ہے۔
گو یہ سینکڑوں فٹ لمبا درخت اٹھا کر اپنی ڈیم سائٹ تک تو نہیں لاسکتا لیکن یہ درخت سے ڈیم تک نہر بنا لیتا ہے اور درخت کو پانی میں کھینچ کر پشتہ بنانے کے مقام تک لے آتا ہے۔
Multifunctionele #Beverdam. Ook de #ijsvogel is er blij mij.@Brab_Landschap pic.twitter.com/ueuuOr8MyO
— Evert 🦡 🦫🐺🦉🐗🇳🇱 (@Evertdassenwgr) September 21, 2019
اودبلاؤ پہلے عمودی رخ پر درخت گاڑتے ہیں اور پھر اس کے بعد افقی رخ پر پتھر اور لکڑیاں رکھ کر ان کو گارے سے باندھ دیتے ہیں۔ ان ننھے انجینیئروں کے بنائے ہوئے یہ ڈیم پانی کا بہت زیادہ دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ڈیم کے بعد اپنے ’بنگلے‘ کی تعمیر
جب ڈیم بن جاتا ہے اور ادھر مناسب مقدار میں گہرا پانی جمع ہو جاتا ہے تو پھر یہ اپنا رہائشی ’بنگلہ‘ بنانے میں جت جاتے ہیں جس کے لیے یہ پانی کے بیچ میں دوبارہ لکڑیاں اکٹھی کرتے ہیں اور پتھر کے ساتھ ایک کئی گز اونچا ڈھیر بنا لیتے ہیں اور پھر اس کی کیچڑ سے لپائی کرتے ہیں جس سے ان کا گھر بالکل سیل بند ہو جاتا ہے اور گارا بالکل پتھر کی مانند سخت ہو جاتا ہے۔
گارے کی یہ پرت کٹیا کو موسم کی شدت سے بھی محفوظ رکھتی ہے اور دشمنوں سے بھی جو عموماً بھیڑیے، گیدڑ اور ریچھ ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اودبلاؤ پانی کے نیچے اس کی بنیاد تک جاتے ہیں اور ایک سرنگ بنا کر نیچے ہی نیچے کٹیا میں جانے کا راستہ بنا لیتے ہیں۔ اس ایک کٹیا میں رہنے والا اودبلاؤ کا خاندان عموماً 4 بڑوں اور 6 یا 7 بچوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
نہ علاقائی جھگڑے اور نہ ہی ’فنڈ ریزنگ‘ اور ڈٰیم تیار لیکن بھلا کیسے؟
اودبلاؤ پاکستان میں نہیں پائے جاتے۔ ہاں اگر کسی کو پالنے کا شوق ہوگا تو وہ باہر سے لے آیا ہوگا۔ یہ سرد ترین علاقوں میں بھی رہ سکتا ہے۔ اب آپ سوچیں اگر انہیں ایک بڑی تعداد میں لاکر یہاں ندی نالوں میں چھوڑ دیا جائے اور خصوصاً شمالی علاقہ جات میں بھی بسادیا جائے تو یہ کتنے ڈیم بنادیں گے۔
بس انہیں وہاں چھوڑنے کی دیر ہے پھر نہ تو ہمیں اس کے لیے لمبے چوڑے فنڈز چاہیے ہوں گے اور نہ ہی ان قدرتی ڈیموں پر کوئی سیاسی جھنجھٹ یا تنازعہ کھڑا ہوگا اور ہماری آبی ضروریات مزے سے پوری ہوجائیں گی۔ اب یہاں یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ ’ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے‘۔