گاڑی ایک ہلکے سے دھماکے کے ساتھ اچانک ہچکولے کھا کر رکی تو سلطان راہی اور ان کے ساتھی حاجی احسن کے چہرے پر پریشانی کے سائے چھا گئے۔ 8 اور 9 جنوری کی سرد رات تھی۔ دھند ایسی تھی کہ ہاتھ کو ہاتھ نہیں سجھائی دے رہا تھا۔ گاڑی کے سبھی شیشے بند ہونے کے باوجود سواروں کو سردی ریڑھ کی ہڈی میں اترتی محسوس ہو رہی تھی۔ ایسے میں گاڑی کا اچانک رک جانا دونوں کو بے چین کر گیا۔ سلطان راہی اسلام آباد میں امریکا کا ویزہ لگانے کے بعد جی ٹی روڈ سے واپس لاہور کی جانب بڑھ رہے تھے کہ گوجرانوالہ بائی پاس پر انہیں اس انجانی مصیبت کا سامنا کرنا پڑ گیا۔
سلطان راہی کی گاڑی عام طور پر ان کے سیکریٹری حاجی احسن ہی چلاتے تھے لیکن اس روز وہ خود ڈرائیو کر رہے تھے۔ حاجی احسن مشہور انقلابی شاعر حبیب جالب کے کزن تھے۔ گاڑی دھیرے دھیرے رکتی چلی گئی تو سلطان راہی اور حاجی احسن نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ سلطان راہی کے ہم سفر نے اُن کی چہرے پر آئی پریشانی کو پڑھتے ہوئے کہا کہ “لگتا ہے ٹائر پنکجر ہو گیا۔ کوئی بات نہیں ڈکی میں دوسرا ٹائر ہے۔ ابھی بدل دیتے ہیں۔”
اب دونوں گاڑی سے اترے تو حاجی احسن کا اندازہ درست نکلا۔ ٹائر واقعی پنکجر تھا جسے تبدیل کرنے کے لیے انہوں نے پھرتی دکھانی شروع کر دی۔ سلطان راہی بھی یہی چاہتے تھے کہ جیسے بھی ہو وہ بس جلدی سے یہ کام کر دیں ۔ کیونکہ یہ مقام اور رات کی تاریکی ماحول کو خوف ناک بنا رہی تھی۔ حاجی احسن باتیں بھی کر رہے تھے جبکہ ان کے ہاتھ تیزی سے ٹائر بدلنے میں مصروف تھے۔ تبھی اس سنسان اور ویران جگہ پر اسلحہ بردار 2 نقاب پوش نجانے کہاں سے آ دھمکے۔
اس ناگہانی آفت نے سلطان راہی کو اور مضطرب کر دیا۔ گاڑی چلانے کی تھکاوٹ، ٹائر پنکجر ہونے کی کوفت اور اب ڈاکوؤں کی آمد نے راہی صاحب کے ضبط کا بندھن توڑ دیا۔ اس کے نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے اسلحہ کے زور پر اُن سے قیمتی سامان چھیننے والے ڈاکوؤں کے سامنے مزاحمت کی۔ سلطان راہی گتھم گتھا بھی ہوئے اور پھر اچانک ہی ایک گولی چلنے کی آواز آئی اور پھر حاجی احسن نے دیکھا کہ راہی صاحب زمین پر ڈھیر ہو گئے۔
حاجی احسن کے تو اوسان خطا ہوگئے۔ ڈاکوؤں نے انہیں گاڑی میں بیٹھنے کا حکم دیا اور خود گاڑی میں رکھا بریف کیس اور دیگر سامان اٹھایا اور اندھیرے میں غائب ہو گئے۔ حاجی احسن اپنی تمام تر توانائی اور ہمت کو مجتمع کر کہ راہی صاحب کی طرف بڑھے جو بے سدھ اور ساکت پڑے تھے۔ حاجی احسن کو احساس ہو گیا کہ انہیں فوری طور پر طبی امداد کی ضرورت ہے۔ وہ سڑک پر کھڑے تھے اور مدد کے لیے گاڑیوں کو روکنے کی کوشش میں تھے لیکن کوئی بھی ان کی پکار یا فریاد نہیں سن رہا تھا۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ کوئی مدد کو نہیں ۤآ رہا تھا۔
جب کسی نے ان کی آہ و فریاد نہ سنی تو وہ تیز تیز دوڑتے ہوئے اس مقام تک پہنچے جہاں ٹرکوں کا اڈہ تھا۔ وہاں سے پولیس کو اطلاع دی گئی اور پھر راہی صاحب تک پہنچا گیا۔ ایمبولینس میں ڈال کر انہیں قریبی اسپتال لایا گیا لیکن یہ خبر ہر ایک کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں تھی کہ فن کا سلطان اب اس دنیا سے منہ موڑ گیا ہے۔ ڈاکوؤں کی چلائی ہوئی گولی راہی صاحب کے جبڑے سے دماغ تک پہنچی تھی جس نے موقع پر ہی انہیں زندگی سے محروم کر دیا۔
سلطان راہی کے قتل کی خبر ہر جانب پھیل چکی تھی۔ کسی نےتصور بھی نہیں کیا تھا کہ پردہ سیمیں پر سینکڑوں بدمعاشوں کو گنڈاسے کے ایک وار سے دوسرے جہاں پہنچانے والا یہ عظیم فن کار ڈکیتی کے دوران ایک گولی لگنے سے قتل ہو جائے گا۔ گرج چمک کے ساتھ ظالموں پر برسنے والا غیر معمولی ہیرو اب نہیں رہا تھا۔ اس سانحہ کے وقت راہی صاحب کے اہل خانہ امریکا میں تھے۔ ان کے پاکستان آنے پر 14 جنوری 1996 کو سلطان راہی کو لاہور میں شاہ شمس قادری کے مزار کے احاطے میں سپرد خاک کیا گیا۔
راہی صاحب کے اس وحشیانہ قتل کے بعد اب فنکار سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے۔ پولیس پر دباؤ تھا۔ جس نے تفتیش کے لیے سب سے زیادہ حاجی احسن کو پریشان کیا۔ افواہیں تو یہ بھی گردش کر رہی تھیں کہ یہ ڈکیتی مزاحمت قتل نہیں بلکہ کسی نے پیشہ ورانہ انتقام کا نشانہ بنایا ہے۔ پولیس نے بھی اس پہلو پر اپنی تفتیش کی لیکن یہ صرف ایک مفروضہ ہی ثابت ہوا۔ راہی صاحب کے ساتھ کام کرنے والے فنکاروں نے اپنے احتجاج کو اور تیز کیا تو اُس وقت کی حکومت نے تنقید سے بچنے کے لیے پولیس کو قاتلوں کی گرفتاری کے لیے تمام تر اختیارات اور ذرائع استعمال کرنے کا حکم دیا۔ پولیس کی دوڑیں لگی ہوئی تھیں۔ فنکار چاہتے تھے کہ اصل قاتلوں کو جلد از جلد قانون کی گرفت میں لایا جائے۔
راہی صاحب کے مقابل کئی فلموں میں ولن کا کردار ادا کرنے والے مصطفیٰ قریشی اس سارے معاملے میں خاصے فعال تھے جنہوں نے راہی صاحب کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے باقاعدہ مہم چلائی ہوئی تھی۔ اس وجہ سے پولیس ٹک کر نہیں بیٹھ رہی تھی اور پھر خبر ملی کہ مدوخلیل سے ایک ملزم ساجد عرف ساجو کانا پکڑا گیا ہے جس کے گھر سے سلطان راہی سے لوٹا ہوا ڈکیتی کا سامان بھی ملا ہے۔ پولیس کا یہی دعویٰ تھا کہ ساجد نے ہی سلطان راہی کو خو ن میں نہلایا۔ لیکن یہ بھی کسی ڈرامائی پہلو سے کم نہیں تھا کہ ساجد کو مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا۔
فنکاروں نے مبینہ ملزم کی گرفتاری اور پھر اس کی ہلاکت کو مشکوک قرار دیا۔ اسی بات پر فنکار پھر سے احتجاج کر رہے تھے۔ پھر پولیس نے یہ انکشاف کیا کہ اس نے شیخو پورہ سے ڈکیت گینگ کو حراست میں لیا ہے جس میں شامل ایک ملزم یونس نے راہی صاحب کو قتل کرنے کا اعتراف کیا۔ لیکن یہ بھی عجیب اور پراسرار داستان ہے کہ ملزم کے اقبالی بیان کے باوجود پولیس کی ناقص اور غیر معیاری تفتیش کی بنا پر عدالت نے ملزم کو اس کیس سے بری کر دیا۔
آج سلطان راہی کی برسی ہے لیکن افسوس کہ 28 سال گزر جانے کے باجود پاکستانی فلمی دنیا کے بے تاج بادشاہ کے قتل کا معمہ حل نہیں ہو سکا۔ کیا واقعی ساجد اور یونس ہی وہ ڈکیت تھے جنہوں نے رات کی تاریکی میں یہ سفاکی دکھائی؟ یا پھر پولیس اصل قاتلوں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی؟ کئی سوالات ہیں جن کے جواب ملنا باقی ہیں۔