وفاقی شرعی عدالت نے سندھ چائلڈ میرجز ریسٹرکشن ایکٹ 2013 کے تحت شادی کی کم سے کم عمر سے متعلق فیصلہ جاری کر دیا ہے، جس میں قرار دیا گیا ہے کہ شادی کیلئے کم سے کم عمر 18 سال ہونا اسلام سے کسی طرح سے بھی متصادم نہیں ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ فیصلہ وفاقی شرعی عدالت کے دو رکنی بینچ نے سنایا جس میں چیف جسٹس سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین شیخ شامل تھے۔
شہری آرزو فاطمہ کے سابق شوہر علی اظہر نے سندھ چائلڈ میرجز ریسٹرکشن ایکٹ 2013 کی شق 2 A اور 8 سے اختلاف کرتے ہوئے اسے چیلنج کیا تھا۔
عدالت نے درخواست خارج کرتے ہوئے قرار دیا کہ حکومت کے پاس شادی کیلئے کم سے کم عمر منتخب کرنے کا اختیار موجود ہے ،عدالت نے یہ بھی پایا کہ اس عمل سے اسلامی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی ۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ’شادی کے لیے کم از کم عمر مقرر کرنا اسلام کے احکام کے مطابق ہے کیونکہ اس طرح کی کم از کم عمر کی حد کا تعین لڑکیوں کو بنیادی تعلیم مکمل کرنے کے لیے مناسب وقت فراہم کرتا ہے جوکہ عموماً کسی شخص میں ذہنی پختگی پیدا کرنے میں مدد دیتی ہے‘۔
درخواست گزار کے وکیل کا استدلال تھا کہ کچھ بوڑھے یا غریب والدین اپنی کم عمر بیٹیوں کی شادی ان کی بھلائی کے لیے کر دیتے ہیں، تاہم اس کے جواب میں بینچ نے کہا کہ اس نکتے کو صرف کچھ غیرمعمولی کیسز میں ہی مدنظر رکھا جا سکتا ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اظہر نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ سندھ کے ایکٹ کے مطابق شادی کیلئے کم سے کم عمر 18 سال اسلامی قوانین کے مطابق نہیں ہے ۔
سندھ ایکٹ 2013ء میں 18 سال سے کم عمر کے کسی بھی نابالغ شہری کی شادی پر پابندی ہے اور ایسا کرنے والے مرد اور دونوں فریقین کے والدین یا سرپرست کے لیے سزائیں بھی طے ہیں۔