’کشمیر کی جلتی وادی میں بہتے ہوئے خون کا شور سنو‘

پیر 5 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

1990 میں پہلی بار 5 فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر منایا گیا تھا۔ ان دنوں ریڈیو تراڑ کھل آزاد کشمیر کے اسٹیشن ڈائریکٹر ضمیر صدیقی تھے۔ حکومت نے ہدایت جاری کی تھی کہ یومِ یکجہتی کشمیر کے موقع پر شعرا سے نغمے اور گیت لکھوائے جائیں۔ ضمیر صدیقی صاحب نے مجھے بھی نغمہ لکھنے کا کہا تو سوچا کہ کشمیر کی جنت نظیر خوبصورتی پر بہت کچھ لکھا جا چکا لیکن کشمیر کا مقدمہ کسی نغمے میں پیش نہیں کیا گیا، یوں قریباً ایک ہفتے کی خیال آرائی کے بعد یہ نغمہ مجھ پر اترا کہ کیوں نہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں کو جھنجھوڑا جائے:

’دنیا کے منصفو، اے دنیا کے منصفو، سلامتی کے ضامنو
کشمیر کی جلتی وادی میں بہتے ہوئے خون کا شور سنو
اے دنیا کے منصفو، سلامتی کے ضامنو !
آزادی کی فضاؤں میں رہنے والو
انسانوں کا حق تسلیم بھی کرتے ہو؟
اور کشمیر میں ظلم و ستم کرتے ہیں جو
ان کے لیے کوئی حرفِ ستم نہیں رکھتے ہو
اب چاہے ہمارے گھر نہ رہیں، یا جسم پہ اپنے سر نہ رہیں
ہم پھر بھی کہیں گے آزادی، آزادی
ہم لے کے رہیں گے آزادی
دنیا کے منصفو، اے دنیا کے منصفو!
ماں کے سامنے تڑپ تڑپ کر بیٹا مرا،
بھائی کے سامنے تار تار بہنوں کی رِدا
خون میں تر پتا پتا، بُوٹا بُوٹا
اب کشمیر کا ذرہ ذرہ بول پڑا
آزادی کی صدا دیکھو، یہ دھرتی کی وفا دیکھو
آزادی کی صدا دیکھو، یہ دھرتی کی وفا دیکھو
دنیا کے منصفو، اے دنیا کے منصفو، سلامتی کے ضامنو
کشمیر کی جلتی وادی میں بہتے ہوئے خون کا شور سنو
دنیا کے منصفو، اے دنیا کے منصفو، سلامتی کے ضامنو‘

معروف شاعر جاوید احمد نے اپنے مشہورِ زمانہ نغمے ’اے دنیا کے منصفو‘ کا پس منظر مجھے اکادمی ادبیات پاکستان میں 25 اگست 2020 کو ہونے والی ملاقات میں، میرے استفسار پر بتایا تھا۔ ممتاز شاعر، ناول نگار اور مدیر ’ادبیات‘ اختر رضا سلیمی کے آفس میں ہوئی یادگار ملاقات میں جاوید احمد سے خاصی دلچسپ گفتگو ہوئی۔ اس موقع پر انہوں نے اپنا شعری مجموعہ ’ایک پردہ سُخن سے آگے ہے‘ بھی عنایت کیا اور میری فرمائش پر سیلفی بھی بنوائی تھی۔

جاوید احمد نے مزید بتایا کہ ریڈیو تراڑ کھل آزاد کشمیر کے اسٹیشن ڈائریکٹر ضمیر صدیقی نے نغمے کو بے حد سراہا اور نغمے کی موسیقی اور دھن کے لیے پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) کے معروف موسیقار ’ایم عبداللہ‘ کا انتخاب کیا گیا۔ اس تاریخی نغمے کو ’شالیمار ریکارڈنگ کمپنی‘ میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ گلوکارہ رخسانہ مرتضیٰ اور حنا صدیقی نے آواز کا جادو جگایا جبکہ ان کے ہمراہ کورس گانے کے لیے دیگر آرٹسٹ بھی موجود تھے۔ ایم عبداللہ کا ماننا ہے کہ یہ نغمہ ان کی زندگی کی بہترین دھن ہے۔

یہاں یہ ذکر بھی ازحد ضروری ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کے لیے ریڈیو تراڑ کھل آزاد کشمیر نے نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ تراڑ کھل کو تحریک آزادئ کشمیر کا بیس کیمپ بھی کہا جاتا ہے۔ 24 اکتوبر1947 کو آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کا قیام عمل میں آیا تھا۔ آزاد کشمیر کا پہلا دارالحکومت بھی تراڑ کھل میں ’جونجال ہل‘ کے مقام پر بنایا گیا تھا جسے بعد ازاں مظفر آباد منتقل کردیا گیا تھا۔

آزاد کشمیر کا پہلا ریڈیو اسٹیشن بھی تراڑ کھل میں ہی 16 اپریل 1948 کو شروع کیا گیا تھا جو آزاد کشمیر کے پاکستان اور دنیا بھر سے مواصلاتی رابطے کا واحد ذریعہ تھا۔ ریڈیو تراڑ کھل کی ابتدا خواجہ غلام محی الدین کے اس تاریخی جملے سے ہوئی تھی کہ ’یہ چھ آزاد کشمیر ریڈیو۔‘ (ترجمہ: یہ آزاد کشمیر ریڈیو ہے)۔ ریڈیو تراڑ کھل آزاد کشمیر کے پہلے اسٹیشن ڈائریکٹر محمود نظامی جبکہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر چوہدری محمود اقبال تھے۔ 1960 میں دارالحکومت مظفر آباد میں بھی ریڈیو اسٹیشن قائم کیا گیا تھا۔

پاکستان کے معروف شاعر اور ادیب ریڈیو تراڑ کھل سے وابستہ رہے ہیں، چند معروف ناموں میں اشفاق احمد، ممتاز مفتی، ن م راشد، اعجاز بٹالوی، ضیا محی الدین شامل ہیں۔ مشہورِ زمانہ نظم ’کبھی ہم خوبصورت تھے‘ کے خالق احمد شمیم بھی ریڈیو تراڑ کھل سے منسلک رہے۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ ’قدرت اﷲ شہاب‘ آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے پہلے چیف سیکرٹری تھے۔

ریڈیو تراڑ کھل سے نشر ہوتے ہی ’اے دنیا کے منصفو‘نے دھوم مچا دی تھی۔ مقبوضہ اور آزاد کشمیر سمیت دنیا بھر میں موجود کشمیریوں نے اسے اپنے دل کی آواز قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ نغمہ ان کے جذبات اور احساسات کا ترجمان ہے۔ نغمے کی مقبولیت کے پیش نظر پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) نے ریڈیو سے نغمہ لیکر اسے بھارتی افواج کے بیہمانہ مظالم کی فوٹیجز لگا کر آن ایئر کیا تاکہ مظلوم نہتے کشمیریوں کی آواز دنیا بھر میں پہنچ سکے۔ اس کام کا فریضہ پی ٹی وی کے پروڈیوسر شاہد عمران گکھڑ نے بخوبی انجام دیا تھا۔

مینجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) پی ٹی وی فرہاد زیدی نے جاوید احمد کو کھانے پر بلایا اور ان کے نغمے کی تحسین کی۔ ان دنوں جاوید احمد ریڈیو پشاور چلے گئے تھے۔ فرہاد زیدی نے جاوید احمد کے لیے پی ٹی وی پر ایک مشاعرے کا اہتمام بھی کروایا، جس کی صدارت بزرگ سیاستدان اور شاعر نوابزادہ نصراللہ خان (ناصر تخلص کرتے تھے) نے کی تھی۔ وہاں جاوید احمد نے یہ نغمہ سنایا اور داد سمیٹی۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے کنونشن سینٹر اسلام آباد میں منعقدہ ایک شاندار تقریب میں جاوید احمد کو گولڈ میڈل سے بھی نوازا گیا تھا۔

’اے دنیا کے منصفو‘ جیسی مقبولیت کم ہی کسی نغمے کو ملی ہوگی، اسکولز کالجز میں بھی اس نغمے پر ٹیبلوز ہونے لگے تھے، یہ نغمہ آج بھی پہلے دن جیسی شہرت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ جاوید احمد نے کشمیر پر بہت سی نظمیں، گیت اور نغمے لکھے ہیں، ان کے کشمیر پر لکھے گئے کلام کو شعری مجموعے ’دنیا کے منصفو‘ کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے۔ غزل اور نظم کے میدان میں بھی جاوید احمد کا پلڑا بھاری ہے، ان کے کئی اشعار زبانِ زدِ عام ہیں:

چند شاعر ہیں جو اس شہر میں مل بیٹھتے ہیں
ورنہ لوگوں میں وہ نفرت ہے کہ دل بیٹھتے ہیں

1990 میں جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا تو اس وقت کی وزیر اعظم پاکستان بے نظیر بھٹو نے اس دن کو قومی سطح پر منانے کی ہدایت کرتے ہوئے عام تعطیل کا اعلان کیا تھا۔ چلیں چھوڑیں آپ یوم یکجہتی کشمیر پر ’ایک منٹ کی خاموشی‘ اختیار کرکے چھٹی انجوائے کریں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp