پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو پشاور ہائیکورٹ سے بلے کا نشان ملنے کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی، جس پر آج قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ کا حصہ ہیں۔ کارروائی مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے عدالتی عملے کو رجسٹرار پشاور ہائیکورٹ سے معلومات لینے کی ہدایت کر دی اور کیس کی براہ راست سماعت کل صبح 10 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پی ٹی آئی کسی کو زبردستی تو الیکشن نہیں لڑوا سکتی، کیا صرف اس بنیاد پرانتخابات کالعدم قرار دے دیں، پی ٹی آئی کو انتخابی نشان نہ ملا تو کیا اکبر بابر کو نقصان نہیں ہوگا؟
اس پر اکبر بابر ایس کے وکیل احمد حسن نے کہا کہ اکبر بابر کا جرم قانون پر عملدرآمد کے لیے آواز اٹھانا ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کہتا ہے پارٹی الیکشن کروائیں، نشان تو بعد کی بات ہے، اکبر بابر اتنے عرصے سے پی ٹی آئی کو تنگ کیوں کر رہے ہیں؟
اس پر وکیل احمد حسن نے کہا کہ پی ٹی آئی شاید اکبر بابر کو تنگ کر رہی ہے، ممنوعہ فنڈنگ پر پارٹی سے اختلاف ہوا تھا اس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے پر سوال کیا کہ اکبر ایس بابر خود پی ٹی آئی کےخلاف کھڑے ہیں یا ان کے پیچھے کوئی کھڑا ہے؟
اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن نے دلائل مکمل کر لیے تو عدالت نے حکم نامہ جاری کیا کہ پشاور ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف الیکشن کمیشن نے اپیل دائر کی، آگاہ کیا گیا کہ پشاور ہائیکورٹ کا تفصیلی فیصلہ ابھی نہیں آیا، آگاہ کیا گیا کہ عام انتخابات کی وجہ سے معاملہ فوری سماعت کا ہے۔
ہمارا ویک اینڈ برباد کرنے کا شکریہ، چیف جسٹس کے ریمارکس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر پی ٹی آئی نے ثابت کردیا کہ انکے پارٹی الیکشن درست ہے تو ریلیف دینا لازم ہے، الیکشن کمیشن کو بھی انہیں انتخابی نشان دینا لازم ہوگا، اور اگر پی ٹی آئی ثابت کرنے میں ناکام رہی تو پھر انہیں نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔
ان ریمارکس کے بعد چیف جسٹس نے سماعت کل صبح 10 بجے تک ملتوی کر دی، اور پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان کو ہدایت کی کہ کل صبح آپ کے دلائل سے سماعت کا آغاز ہوگا۔ کیس جب تک ختم نہیں ہوگا تب تک سماعت چلے گی۔ ہوسکتا ہے آپ سے کل کچھ پوچھنا پڑ جائے۔ ہمارا ویک اینڈ برباد کرنے کا شکریہ۔
دھرنا کیس اور فارن فنڈنگ کیس کا ذکر
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ دھرنا کیس میں الیکشن کمیشن نے قانون کو کاسمیٹک کہا تھا، وکیل مخدوم علی نے جواب دیا کہ قانون پر عمل کرنے یا نہ کرنے کا آپشن نہیں ہوتا، چیف جسٹس نے کہا کہ 9 سال میں ممنوعہ فنڈنگ کیس نہیں ہو سکا آپ سے؟ حکام الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے قانونی چارہ جوئی چلتی رہی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2018 میں الیکشن کمیشن کو کارروائی کا حکم دیا تھا۔
اکبر ایس بابر اور ان کے وکیل کے دلائل
وکیل اکبر ایس بابر نے کہا کہ میں عدالت کے سامنے مختصر دلائل دوں گا، پشاور ہائیکورٹ میں نوٹس کیا گیا نہ موقف سنا گیا۔ کاغذات نامزدگی لینے مرکزی سیکرٹریٹ گئے لیکن کچھ نہیں دیا گیا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کاغذات نامزدگی کی شکل تو دکھائیں، اکبر ایس بابر بولے ہمیں کوئی کاغذ ہی نہیں ملا تو انکی شکل کیسی؟
وکیل اکبر ایس بابر نے اپنے دلائل میں کہا کہ اکبر ایس بابر نے پارٹی چھوڑی نا استعفی دیا، الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی نے پریس ریلیز جاری کی تھی، ہر شہری کا حق ہے وہ کوئی بھی سیاسی جماعت جوائن کر سکتا ہے، پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی نے کہا اکبر بابر پارٹی رکن نہیں ہیں۔
عدالت نے اکبر ایس بابر سے بانی رکن ہونے کا ثبوت مانگ لیا اور پی ٹی آئی سے اکبر بابر کو نکالنے کی دستاویزات بھی طلب کیں۔
حامد خان صاحب اگلی سماعت پر پوری تیاری کرکے آئیے گا، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے وکیل حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حامد خان صاحب پوری تیاری کرکے مخدوم علی خان کو بولڈ کرنے آئیے گا، جسٹس مسرت ہلالی نے بھی سوال کیا کہ اسد عمر نے پارٹی عہدہ چھوڑا تو ایسے میں پی ٹی آئی کا آئین کیا کہتا ہے؟ کیا ہنگامی طور پر کوئی سیکرٹری جنرل تعینات ہوسکتا ہے؟ چیف جسٹس نے سوال کیا، سیکرٹری جنرل اگر الیکشن کمشنر کی نامزدگی کریں تو بھی ون مین شو نہیں ہوسکتا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کیا پشاور ہائیکورٹ نے پارٹی انتخابات پر کوئی رائے دی ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ مختصر فیصلے میں پارٹی انتخابات کا ذکر نہیں ہے، چیف جسٹس نے پوچھا کہ بلے کا نشان تو پارٹی انتخابات درست ہونے کی صورت میں ہی مل سکتا، پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا حکم دینے کا مطلب ہے الیکشن کمیشن جائزہ نہیں لے سکتا، چیف جسٹس نے کہا کہ جمہوریت ملک اور سیاسی جماعت دونوں میں ہونی چاہیے، پشاور ہائیکورٹ پارٹی انتخابات درست ہونے کا ڈیکلریشن تو دیا ہی نہیں ہے۔
وکیل مخدوم علی کے دلائل
وکیل مخدوم علی نے اپنے دلائل میں کہا کہ عمر ایوب کو اختیار نہیں تھا کہ نیازاللہ نیازی کو چیف الیکشن کمشنر تعینات کرتے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کا پہلے موقف تھا کہ جون 2022 والے انتخابات درست تھے، دوبارہ الیکشن پر جو عہدیدار فارغ ہوئے کیا ان کے حقوق متاثر نہیں ہوئے؟ کیا پہلے والے انتخابات بھی بلامقابلہ تھے؟ لگتا ہے پارٹی انتخابات پر پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کا پرانا جھگڑا چل رہا ہے۔
وکیل مخدوم علی نے کہا کہ سال 2021 میں انتخابات کا نوٹس جاری کیا تو جواب آیا کہ کورونا کی وجہ سے نہیں کرا سکتے، چیف جسٹس نے کہا کہ جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی تو الیکشن کمیشن نے ریلیف دیدیا تھا، وکیل مخدوم علی نے کہا کہ پی ٹی آئی کو حکومت میں ہوتے ہوئے بھی شوکاز دیا تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ نگراں حکومت کے دباؤ میں کام نہیں کر رہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے پی ٹی آئی کو ایک سال کی مہلت دی تھی، چیف جسٹس نے پوچھا دیکھنا چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی کیساتھ رویہ اب سخت ہوگیا ہے یا پہلے سے تھا، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو وقت مانگنے پر ایک سال دیا پھر کہا انتخابات ٹھیک نہیں ہوئے۔ پہلے پی ٹی آئی سرکاری پارٹی تھی اب شاید نہیں ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی آئین کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب ہونا ضروری ہے، نیاز اللہ نیازی کا تقرر کسی بھی انتخاب کے بغیر ہوا، بیرسٹر گوہر نے بطور چیف الیکشن کمشنر استعفی دیا جس پر نیاز اللہ نیازی کا تقرر ہوا، عمر ایوب کے سیکرٹری جنرل ہونے کا بھی الیکشن کمیشن کو آگاہ نہیں کیا گیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کیا الیکشن کمیشن کو سیکرٹری جنرل کی تبدیلی سے آگاہ کرنا ضروری ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت آگاہ کرنا ضروری ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کیا باقی جماعتوں کیساتھ بھی ایسا سلوک ہی کیا جا رہا ہے یا پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک ہورہا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ تمام سیاسی جماعتوں کیساتھ یکساں رویہ ہے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ الیکشن لڑنے کا بنیادی حق ہر شہری اور جماعت کا ہے، الیکشن لڑنے کا بنیادی حق چھین لیں تو آمریت قومی اور نجی سطح پر بھی آ جائے گی، جسٹس مظہر علی نے بھی پوچھا کہ کیا دیگر جماعتوں کے آئین کو بھی اتنی باریکی سے دیکھا جاتا ہے؟ کیا باقی جماعتوں میں بھی بلامقابلہ انتخاب ہوتا ہے یا صرف پی ٹی آئی میں ہوا ہے؟
ریکارڈ دیکھ کر جواب دیں گے، ڈی جی لاء الیکشن کمیشن
ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے کہا کہ ریکارڈ دیکھ کر جواب دینگے، آج پارٹی انتخابات نہ کرانے پر 13 سیاسی جماعتوں کو ڈی لسٹ کیا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات بہت وزن رکھتی ہے کہ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی پی ٹی آئی کو نوٹس کیا گیا تھا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا کہ پارٹی انتخابات کی آگاہی کے لیے قانون میں کوئی طریقہ کار ہے؟ ہر شخص کے پاس واٹس ایپ کی سہولت تو نہیں ہوتی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 2 دسمبر سے پہلے پی ٹی آئی کے انتخابات کب ہوئے تھے؟ وکیل مخدوم علی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے گزشتہ انتخابات 8 جون 2022 کو ہوئے تھے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے جون 2022 میں ہونے والے انتخابات کالعدم قرار دیے تھے، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کا یہ حکم چیلنج ہوا تھا؟ وکیل مخدوم علی نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں فیصلہ چیلنج ہوا تھا جو لارجر بینچ کو ریفر کیا گیا لیکن فیصلہ نہ ہوسکا۔
جسٹس مظہر علی نے استفسار کیا کہ ریکارڈ کے مطابق کیس زیرالتواء ہونے کے دوران ہی دوبارہ پارٹی انتخابات ہوگئے تھے، چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا دونوں پارٹی انتخابات میں وہی عہدیداران منتخب ہوئے تھے؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ اس حوالے سے ہدایات اور ریکارڈ لیکر ہی آگاہ کر سکوں گا، الیکشن کمیشن نے 20 دن میں پارٹی الیکشن کرانے کا کہا تھا اس لیے دوبارہ کرائے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سارا جھگڑا 22 دسمبر کے انتخابات کا ہے، سب سے پہلے تو ہائیکورٹ کو ڈکلیئر کرنا تھا کہ انتخابات درست ہوئے، انتخابات درست ہوئے تو انتخابی نشان کا مسئلہ آئے گا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی انتخابات درست قرار دینے کا ڈیکلریشن نہیں دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بنیادی چیز جمہوریت ہے، ملک اور سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت ہونی چاہیے۔
آپ کس حیثیت سے دلائل دے رہے ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے پوچھا کہ لاہور ہائیکورٹ میں زیرالتوا درخواست کیا واپس لے لی ہے؟ حامد خان نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کو درخواست غیر موثر ہونے سے آگاہ کر دیا ہے۔ بیرسٹر گوہر علی خان نے بتایا کہ ہم پشاور ہائیکورٹ میں فورم شاپنگ کرنے نہیں گئے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فورم شاپنگ کی بات آپ نے کی، میں نے نہیں کی۔ یہاں سے ریلیف نہیں ملا تو وہاں چلے جاتے ہیں۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ جب آپ کی درخواست لاہور میں زیر سماعت تھی تو پشاور کیوں گئے؟ بیرسٹر گوہر نے جواب دیا کیونکہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات پشاور میں ہوئے تھے۔ الیکشن کمیشن نے چیئرمین پی ٹی آئی کو پارٹی عہدے کے لیے نااہل کرنے کے لیے کیس چلایا، پارٹی انتخابات اور چیئرمین پی ٹی آئی نااہلی کیسز ایک ساتھ چلانے کی درخواست کی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیس لاہور ہائیکورٹ میں زیر التواء تھا تو پشاور ہائیکورٹ نے کیسے سن لیا؟ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پارٹی انتخابات کی حد تک لاہور ہائیکورٹ والا کیس غیرموثر ہوچکا ہے، انٹراپارٹی انتخابات پشاور میں ہوئے تھے اس لیے پٹیشن بھی وہیں دائر کی گئی۔
چیف جسٹس نے بیرسٹر گوہر سے سوال پوچھا کہ آپ کس حیثیت میں دلائل دے رہے ہیں؟ گوہرعلی نے جواب دیا کہ عدالت کی معاونت کر رہا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان سینیئر وکیل ہیں انہیں بات کرنے دیں۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ باقی کسی جگہ انتخابات کے لیے سیکیورٹی نہیں مل رہی تھی اس لیے پشاور میں انتخابات کروائے۔
پی ٹی آئی کو لاہور ہائیکورٹ کیوں پسند نہیں آئی؟ چیف جسٹس کا استفسار
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کو لاہور ہائیکورٹ کیوں پسند نہیں آئی؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ پشاور کے علاوہ کہیں بھی سیکیورٹی نہیں مل رہی تھی، چیف جسٹس نے پوچھا سیکیورٹی کے لیے عدالت سے رجوع کیا جا سکتا تھا، من پسند عدالتوں سے رجوع کرنے سے سسٹم خراب ہوتا ہے۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا مقدمہ عدالت میں زیر التوا ہے، ہر طرف گرفتاریوں کی وجہ سے پشاور میں سیکیورٹی ملنے پر وہاں انتخابات کرائے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کا ایک کیس لاہور دوسرا پشاور میں کیسے چل سکتا ہے، کیا پشاور ہائیکورٹ میں دائرہ اختیار کا نکتہ اٹھایا تھا؟
وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ پشاور ہائیکورٹ میں دائرہ اختیار سمیت 2 ہائی کورٹس والا نکتہ بھی اٹھایا تھا۔ وکیل حامد کا کہنا تھا کہ جن درخواستوں کا ذکر ہو رہا ہے وہ امیدواروں نے اپنے طور پر دائر کی تھیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ درخواست گزار عمر آفتاب صدر پی ٹی آئی شیخوپورہ ہیں؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست میں کی گئی استدعا پارٹی کی جانب سے تھی، پشاور اور لاہور ہائیکورٹ میں تضاد تو آ گیا ہے۔ کیا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ پی ٹی آئی نے چیلنج کیا ہے؟
وکیل حامد خان نے کہا کہ پی ٹی آئی بطور جماعت فریق ہی نہیں تھی تو چیلنج کیسے کرتی؟ چیف جسٹس نے دوبارہ پوچھا کہ ایک ہائیکورٹ کے سنگل بنچ کا فیصلہ ہو دوسری ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ کا تو فوقیت کسے ملے گی؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ڈویژن بینچ کے فیصلے کو فوقیت دی جائے گی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا دوبارہ آغاز کیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن نے انٹراپارٹی انتخابات کیس میں 64 صفحات پر مشتمل فیصلہ دیا، الیکشن کمیشن کے پولیٹیکل فنانس ونگ نے بھی انٹراپارٹی انتخابات پر سوالات اٹھائے تھے، الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک انصاف کے انتخابات قانون کے مطابق نہیں تھے، پی ٹی آئی کے انتخابات خفیہ اور پیش کی گئی دستاویزات حقائق کے مطابق نہیں تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی آئین کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ بہت اچھا آئین بنایا ہے، اس میں تو سب باتوں کا ذکر ہے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی آئین کے مطابق چیئرمین کا انتخاب ہر 2 سال بعد ہو گا، اور چیئرمین کی مدت ختم ہونے پر اختیار سیکرٹری جنرل کے پاس چلا جائے گا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس وقت پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل کون ہیں؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ اس وقت عمر ایوب ہیں۔ اس سے قبل اسد عمر تھے۔ الیکشن کمیشن کے پاس نہ تو اسد عمر کے سیکرٹری جنرل کے عہدے سے ہٹائے جانے کا ریکارڈ ہے نہ عمر ایوب کی تعیناتی کا ریکارڈ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اسد عمر نے پارٹی چھوڑ دی ہے۔ مخدوم علی نے کہا کہ جی لیکن الیکشن کمیشن کے پاس کوئی معلومات نہیں، اس حوالے سے صرف اخباری خبریں موجود ہیں۔
گمنام گاؤں میں انتخابات کیوں کرائے؟ جسٹس مسرت ہلالی
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی کے انتخابات کہاں ہوئے تھے؟ کسی ہوٹل میں ہوئے یا کسی دفتر یا گھر میں؟ وکیل پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ چمکنی کے گراؤنڈ میں ہوئے تھے، چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا کوئی نوٹیفیکیشن ہے جس میں بتایا گیا ہو کہ پارٹی الیکشن کس جگہ ہوں گے؟ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ چھوٹے سے گمنام گاؤں میں انتخابات کیوں کرائے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ پر تو کچھ نہیں ہے کہ پشاور میں کس جگہ پارٹی الیکشن ہوا، پارٹی ارکان کو کیسے معلوم ہوا کہ ووٹ ڈالنے کہاں جانا ہے؟ پی ٹی آئی وکلاء جواب نہیں دینا چاہتے تو آگے چلتے ہیں، پارٹی ممبران کو تو معلوم ہونا چاہیے کہ ووٹ ڈالنے کہاں جانا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ واٹس ایپ پر لوگوں کو بتایا تھا اور لوگ پہنچے بھی تھے، ویڈیو موجود ہیں عدالت میں چلا لیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ویڈیوز باہر جا کر چلا لیں ہم دستاویزات پر کیس چلاتے ہیں، آپ کے کتنے رجسٹرڈ ممبر ہیں، نیاز اللہ نیازی نے جواب دیا کہ 8 لاکھ 37 ہزار سے زائد ہمارے ممبر ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو سن لیتے ہیں آپ بحث کر لیں، نیاز اللہ نیازی کے روسٹرم پر آنے پر چیف جسٹس نے بیٹھا دیا، آپ کے سینئر وکلا موجود ہیں، ہم ہر کسی کو نہیں سن سکتے، آپ کا وکیل کون ہے آپ پارٹی ہیں، یا تو کہہ دیں کے آپ خود وکیل ہیں، نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ میرے وکیل حامد خان ہیں۔
سماعت میں وقفے سے پہلے کی کارروائی
تحریک انصاف کے وکیل حامد خان کمرہ عدالت، علی ظفر لاہور رجسٹری سے ویڈیو لنک پر موجود ہیں۔ وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا، چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کی فائل میں نے بھی نہیں پڑھی، آپ مقدمہ کے لیے کب تیار ہوں گے؟ حامد خان نے جواب دیا کہ پیر کو سماعت رکھ لیں۔
وکیل الیکشن کمیشن مخدوم علی خان نے کہا کہ کل امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ ہونے ہیں، انتخابی نشان کی الاٹمنٹ کا آخری روز ہے، اس کے بعد بیلٹ پیپرز کی چھپائی ہونا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پیر تک سماعت ملتوی کرنے کے لیے ہائیکورٹ کا حکم معطل کرنا پڑے گا، ہم تو ہفتے اور اتوار کو بھی سماعت کے لیے تیار ہیں۔
وکیل حامد خان نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اس صورت میں تیاری کے لیے کل تک کا وقت دیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پشاور ہائیکورٹ کا تفصیلی فیصلہ آگیا ہے؟ حامد خان نے کہا کہ نہیں تفصیلی فیصلہ نہیں آیا۔ ہم ابھی بحث کے لیے تیار نہیں نہیں، سوموار کو سماعت کرلیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سوموار منگل کو سننے کو تیار ہیں لیکن تب یہ صرف نصابی بحث رہ جائے گی، وکیل حامد خان نے کہا کہ ہفتے کو سماعت کرلیں۔
الیکشن کمیشن اپیل نہ کرے تو اسکے فیصلے بے معنی ہوجائیں گے
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ سیاسی جماعتوں کو ریگولیٹ کرنا اور شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ کوئی ادارہ اپنے فیصلے کے دفاع میں اپیل نہیں کر سکتا، چیف جسٹس نے کہا کہ کسٹم کلیکٹر بھی اپنے فیصلے کیخلاف ہائیکورٹ میں اپیلیں کرتے ہیں، قابل سماعت ہونے کا سوال تو پھر پی ٹی آئی کی ہائیکورٹ اپیل پر بھی آئے گا۔ الیکشن کمیشن اپیل نہ کرے تو اسکے فیصلے بے معنی ہوجائیں گے۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ متاثرہ فریق اپیل کر سکتا ہے الیکشن کمیشن نہیں، کیا ڈسٹرکٹ جج خود اپنا فیصلہ کالعدم ہونے کی خلاف اپیل کر سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈسٹرکٹ جج عدلیہ کے ماتحت ہوتا ہے الیکشن کمیشن الگ آئینی ادارہ ہے، کیا الیکشن کمیشن اپنے خلاف فیصلہ آنے پر سرینڈر کر دے؟
چیف جسٹس نے حامد خان سے مکالمہ کرتا ہوئے کہا کہ اگرچہ میں آپ کے دلائل سے قائل نہیں ہوا لیکن آپ مجھے مزید دلائل سے قائل کر سکتے ہیں۔ حامد خان صاحب ایک آئینی ادارے کا قانونی ادارے سے تقابل نہ کریں۔ آپ نے جو دوفیصلوں کا حوالہ دیا وہ قانونی اداروں کے حوالے سے ہے، حامد خان نے کہا کہ عدالت نے مسابقتی کمیشن اور وفاقی محتسب کے کیسز میں اداروں کو اپنے فیصلوں کیخلاف اپیلوں سے روکا تھا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آئینی اداروں پر ان فیصلوں کا اطلاق ہو سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون اور آئین کے تحت قائم ادارے ایک جیسے نہیں ہوسکتے، آئین کے تحت بنا الیکشن کمیشن آئین کے مطابق ہی اختیارات استعمال کرے گا، کوئی ایسا فیصلہ دکھائیں جہاں آئینی اداروں کو اپیلوں سے روکا گیا ہو۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا انحصار آئین نہیں الیکشن ایکٹ پر ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی بات مان لی تو یہ آئینی ادارے کو ختم کرنے والی بات ہوگی۔
تحریک انصاف کے کل بانی ارکان کتنے تھے
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تحریک انصاف کے کل بانی ارکان کتنے تھے؟ حامد خان نےکہا کہ بانی ارکان کی تعداد 8 سے 12 تھی، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ بھی بانی ارکان میں شامل تھے؟ حامد خان نے کہا کہ جی میں بھی بانی ارکان میں شامل تھا۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ اکبر ایس بابر تحریک انصاف کے فاونڈنگ ممبر ہیں، اکبر ایس بابر کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات کے خلاف درخواست دائر کی گئی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حامد خان صاحب آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ یہ انکا پی ٹی آئی سے تعلق نہیں؟ جعلی الیکش کا الزام ہے ہو سکتا ہے غلط ہو، پارٹی سے نکالنے کا کوئی نوٹیفیکیشن ہے۔
اکبر ایس بابر فاونڈنگ ممبر ہیں جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ میرے خیال سے تو فاؤنڈنگ ممبر کو تو نکالا ہی نہیں جا سکتا، چیف جسٹس نے بھی کہا کہ پی ٹی آئی کے کتنے فاؤنڈنگ ممبرز تھے، وکیل حامد خان نے کہا کہ 10، 12 لوگ فاؤنڈنگ ممبرز تھے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی آئینی ادارے کا کام خود نہیں کرینگے، الیکشن کمیشن کے وکیل کو کیس کے حقائق سے آگاہ کرنے دیں، پارٹی الیکشن کمیشن کی تقرری کی دستاویز کہاں ہے؟ حامد خان نے کہا کہ عدالت باضابطہ نوٹس جاری کرتی تو آج دستاویزات بھی لے آتے، چیف جسٹس نے دوبارہ پوچھا کہ پی ٹی آئی خود ہائیکورٹ گئی تھی انہیں تو اپیل دائر ہونے پر حیران نہیں ہونا چاہیے تھا، الیکشن کمیشن سے کارروائی کا مکمل ریکارڈ منگوا لیتے ہیں، الیکشن کمشن کو پارٹی انتخابات کیخلاف درخواست کس نے دی تھی؟
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ممبران نے پارٹی انتخابات چیلنج کیے تھے، اکبر ایس بابر کی جانب سے ایڈووکیٹ احمد حسن عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ شکایت کنندگان پی ٹی آئی کے ارکان نہیں تھے، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ اکبر ایس بابر تحریک انصاف کے رکن کیسے ہیں؟ اکبر ایس بابر کے وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ہماری شکایت پر کوئی تحریری جواب نہیں دیا تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اکبر ایس بابر نے خود کو پی ٹی آئی کا بانی رکن لکھا ہے۔
اکبر ایس بابر اب پی ٹی آئی کے رکن نہیں ہیں، حامد خان جذباتی ہوگئے
حامد خان نے کہا کہ پارٹی کا بیان کسی انفرادی شخص کے بیان پر فوقیت رکھتا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جذباتی نہ ہوں، اکبر ایس بابر کے رکن نہ ہونے کی دستاویز دکھا دیں، حامد خان نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اکبر ایس بابر بانی رکن تھے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بانی رکن تو میرے حساب سے ختم نہیں ہوسکتا، اگر نکالا ہے تو لیٹر دکھا دیں۔
حامد خان نے کہا کہ بانی ارکان اور بعد میں آنے والوں میں فرق کرنا ہوگا، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آٸی کے پارٹی الیکشن کیخلاف 14 شکایات ملی ہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ درخواستیں کس نے داٸر کیں؟ وکیل مخدوم علی نے کہا کہ درخواستیں دینے والے تحریک انصاف کے لوگ تھے۔
اکبر ایس بابر کے وکیل روسٹرم پر آگٸے اور کہا کہ ہماری درخواست کا کوٸی جواب نہیں دیا گیا، اکبر ایس بابر فاونڈر ممبر پی ٹی آٸی ہے، اکبر ایس بابر پارٹی میں مختلف عہدوں پر تعینات رہے، چیف جسٹس نے پوچھا کہ پھر وہ پی ٹی آٸی کے ممبر کیوں نہیں؟ کیا انٹرا پارٹی انتخابات بلا مقابلہ ہوے تھے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ 3 پینل تھے 2 نے کاغذات واپس لے لیے۔
وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ہرآئینی ادارہ قانون کے تحت چلتا ہے اورالیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ کے قانون کے مطابق چلتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ چلیں ہم نے آپ کے اعتراض کو نوٹ کرلیا ہے، آپ کے پاس اعتراضات کرنے کا بالکل حق موجود ہے۔
وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمیں کل ہی نوٹس ملا ہے ہم تیار نہیں ہیں، چیف جسٹس نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ابھی تک یہ بات سمجھ آئی ہے کہ پارٹی نے اپنے ہی آئین کے تحت الیکشن نہیں کرایا، حامد خان صاحب، آپ دستاویزات داخل کرنا چاہتے ہیں ضرور کریں۔ آپ چاہتے ہیں کہ عدالت الیکشن کمیشن کا ریکارڈ منگوالے توہم وہ بھی منگوالیتے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے کام میں سپریم کورٹ مداخلت نہیں کرے گی، ایک بارسابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ بلدیاتی انتخابات کی تاریخ آگے کرنے لگے، میں نے جسٹس جواد ایس خواجہ سے کہا میں اختلافی نوٹ لکھوں گا، میں نے واضح کہا تھا کہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کاکام ہے، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے میری بات سے اتفاق کیا تھا، الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، اس کے کام میں کوئی ادارہ مداخلت نہیں کرسکتا، اگرالیکشن کمیشن کوئی غیرآئینی کام کرے تو پھر معاملہ دیکھا جاسکتا ہے۔
وکیل احمد حسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ قرار دے چکی ہے کہ اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے رکن ہیں، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا پی ٹی آئی کے انتخابات بلا مقابلہ ہوئے تھے؟ وکیل مخدوم علی نے کہا کہ پہلے 3 پینل تھے پھر اعلان ہوا کہ سب لوگ دستبردار ہوگئے اور انتخاب بلا مقابلہ ہوا، چیف جسٹس نے کہا کہ سیاست میں تو مقابلے ہوتے ہیں لوگ ٹکٹ کے لیے لڑائیاں کرتے ہیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کسی عہدے پر کوئی مقابلہ نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نیاز اللہ نیازی کون ہیں کیا وہ عدالت آئے ہیں؟ نیاز اللہ نیازی عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے سوال کیا آپ وکیل ہیں؟ سب کا بلا مقابلہ متفق ہونا کیا عجیب اتفاق نہیں؟ نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ تمام عہدیدار بلامقابلہ منتخب ہوئے ہیں۔
سماعت میں جمعے کا وقفہ کر دیا گیا، دوبارہ سماعت دن ڈیڑھ بجے ہوگی۔
اس سے قبل الیکشن کمیشن کا عملہ، پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان اور بانی رہنما پی ٹی آئی اکبر ایس بابر بھی سپریم کورٹ پہنچے۔ تحریک انصاف کو بلے کا انتخابی نشان دینے کے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ دائر درخواست میں فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات الیکشن ایکٹ کے مطابق نہیں کرائے۔
واضح رہے کہ قبل ازیں رجسٹرار سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی درخواست پر اعتراض عائد کرتے اپیل واپس کردی تھی۔ الیکشن کمیشن نے اپیل پر عائداعتراض دور کرتے ہوئے درخواست دوبارہ جمع کروائی، جس کے بعد سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کر دی۔