2018 میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں کراچی کے ضلع شرقی کی تمام 4 قومی اسمبلی کی نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کامیابی سمیٹی تھی لیکن الیکشن 2024 میں پی ٹی آئی کو بلے کا نشان نہ ملنے کی وجہ سے نتائج مختلف آتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ضلع شرقی کی قومی اسمبلی کی چاروں نشستوں پر کس کا پلڑا بھاری؟
ضلع شرقی میں اس وقت قومی کی 4 جبکہ صوبائی کی 9 نشستوں پر امیدوار مدِمقابل ہیں اور اگر بات کی جائے قومی اسمبلی کے حلقہ 235 کی تو 2018 میں تحریک انصاف کے سیف الرحمان نے کامیابی سمیٹی اور پیپلز پارٹی کے امیدوار محمد اقبال دوسرے نمبر پر رہے تھے۔
انتخابات 2024 کی بات کی جائے تو پیپلزپارٹی کے امیدوار آصف خان، ایم کیو ایم کے اقبال مسعود اور جماعت اسلامی کے ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی اور 2018 میں کامیابی سمیٹنے والے سیف الرحمن میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔
این اے 236
جہاں تک قومی اسمبلی کی نشست 236 کا سوال ہے تو یہاں سے بانی پی ٹی آئی عمران خان نے 2018 میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن بعد میں وہ اس سیٹ سے دستبردار ہوگئے تھے جس کے بعد ضمنی انتخاب میں ان کی جگہ پارٹی رہنما عالمگیر خان کامیاب ہوئے تھے اور اس بار عالمگیر خان آزاد حیثیت سے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔
اس حلقے میں گمان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید عالمگیر خان عمران خان جتنے ووٹ تو نہ لے پائیں لیکن سیٹ نکالنے کی پوزیشن میں ہیں۔ ان کے مدِمقابل پیپلز پارٹی کے مزمل قریشی، ایم کیو ایم سے حسان صابر جبکہ جماعت اسلامی کی جانب سے اسامہ رضی خان کے ساتھ ساتھ دیگر جماعتیں اور آزاد امیدوار موجود ہیں۔
این اے 237
قومی اسمبلی کی نشست 237 جہاں سے گزشتہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے سابق سینیئر رہنما علی زیدی کو کامیابی ملی تھی لیکن اس بار پی ٹی آئی کی جانب سے نیا چہرہ ایڈووکیٹ ظہور محسود سیٹ بچانے کی کوشش کریں گے۔
مزید پڑھیں
ظہور محسود کے مقابلے میں ایم کیو ایم کی جانب سے رؤف صدیقی، پیپلز پارٹی کے کرنل ریٹائرڈ اسد عالم نیازی اور جماعت اسلامی کی جانب سے عرفان احمد کامیابی کی دوڑ میں شامل ہیں جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں اور آزاد امیدوار بھی پُرامید دکھائی دے رہے ہیں۔
این اے 245
حلقہ این اے 245 ضلع شرقی کا چوتھا حلقہ ہے جہاں سے 2018 میں مرحوم ڈاکٹر عامر لیاقت نے کامیابی حاصل کی تھی تاہم اس بار پی ٹی آئی کی جانب سے عطاء اللہ خان میدان میں اتارے گئے ہیں۔ ان کے مدِمقابل ہوں گے ایم کیو ایم کے صادق افتخار، پیپلز پارٹی کے ظفر جھنڈیر اور جماعت اسلامی کے سیف الدین ایڈووکیٹ جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں اور آزاد امیدوار بھی پنجہ آزمائی کے لیے تیار ہیں۔
ماہرین کے مطابق کراچی میں پاکستان تحریک انصاف کا ووٹ موجود ہے لیکن بلے کا نشان نہ ہونا کافی حد تک پی ٹی آئی کا ووٹ بینک متاثر کرسکتا ہے۔ اسی پیش نظر کراچی کی حد تک بات کی جائے تو بلے کی عدم دستیابی کے باعث یہ کہنا دشوار ہوگیا ہے کہ جیتے گا کون لیکن اس سے دیگر جماعتوں کے لیے جیتنے کے دروازے کچھ حد تک کھلتے دکھائی دے رہے ہیں۔