صوبائی اسمبلی خیبرپختونخوا کے 145 اراکین میں سے 52 امیدوار وزیراعلیٰ بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں، یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا بلے کا نشان واپس لینے سے پرویز خٹک کے لیے وزیراعلیٰ ہاؤس کی راہ ہموار ہوگی؟
سابق وزیراعلیٰ و چیئرمین پی ٹی آئی (پی) پرویز خٹک نے عمران خان سے علیحدگی کے بعد نئی سیاسی جماعت کا اعلان کرکے اگلے انتخابات میں وزیراعلیٰ بننے کا دعویٰ کیا ہے، لیکن 8 فروری کے عام انتخابات کے لیے پرویز خٹک کی جماعت نے صرف 52 حلقوں سے ہی امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔
سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی جماعت نے کسی اور سیاسی جماعت سے انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسمنٹ بھی نہیں کی، اور پرویز خٹک نے اتحاد کے بغیر الیکشن میں جانے کا اعلان کیا ہے۔
وزیراعلیٰ کے لیے کنتے اراکین ہونے چاہیئیں
خیبر پختونخوا اسمبلی میں اراکین کی تعداد 145 ہے جن میں سے 115 امیدوار منتخب ہوتے ہیں جبکہ باقی مخصوص نشتوں سے آتے ہیں، 145 کی اسمبلی میں وزیراعلیٰ بننے کے لیے 73 اراکین کی حمایت درکار ہوتی ہے۔
بلے کا نشان واپس لینے سے کس کو فائدہ ہوگا؟
الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کو مسترد کرکے بلے کا نشان واپس لے لیا، جس کے بعد تحریک انصاف کے اراکین کو مختلف نشان الاٹ کیے گئے، جس سے پارٹی ووٹ بینک متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ جبکہ الیکشن کے بعد بھی کامیاب امیدواروں کی جانب سے ہمدردیاں بدلنے کا بھی خدشہ ہے، جس کا فائدہ زیادہ نشستیں لینے والی جماعت کو ہوگا۔
مزید پڑھیں
پشاور کے سینیئر صحافی علی اکبر کے مطابق بلے کا نشان نہ ملنے سے الیکشن میں پی ٹی آئی کو نقصان ہوگا، جبکہ تحریک انصاف کے حکومت میں آنے کے امکانات ختم انتہائی کم ہوگئے ہیں اور پی ٹی آئی امیدوار آزاد ہونے سے دیگر سیاسی جماعتوں کو فائدہ ملنے کا امکان ہے۔
علی اکبر نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی پوزیشن مظبوط تھی، جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں سادہ اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے کے پوزیشن میں دیکھائی نہیں دے رہیں۔ انہوں نے بتایا کہ صورت حالات سے لگ رہا ہے کہ وزارت اعلیٰ کے لیے پرویز خٹک مظبوط امیدوار ہیں، کیونکہ وہ جوڑ توڑ کے ماہر بھی سمجھے جاتے ہیں۔
’پرویز خٹک آسانی سے آزاد امیدواروں کی حمایت حاصل کر سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی والے پہلے بھی پرویز خٹک کے ساتھ حکومت میں رہے ہیں، اور دیکھا جائے تو صوبے میں اب بھی پرویز خٹک کی بات مانی جاتی ہے اور یہ کہنا غلط نہیں کہ صوبے میں نگراں نہیں بلکہ پرویز خٹک کی حکومت ہے‘۔
ان کا کہنا ہے کہ حالات سے لگ رہا ہے کہ صوبے میں مخلوط حکومت بننے جا رہی ہے، جس میں 2 سے زائد سیاسی جماعتیں اور آزاد اراکین ہوں گے، وزارتیں دے کر سب کو شامل کیا جا سکتا ہے۔
تجزیہ کار عارف حیات کا خیال ہے کہ پرویز خٹک کے لیے حکومت بنانا آسان نہیں ہوگا۔ صرف 52 امیدوار پرویز خٹک نے میدان میں اتارے ہیں۔ ضروری نہیں وہ سب ہی جیت جائیں گے۔ جمیعت علما اسلام، ن لیگ اور پی پی پی، پی ٹی آئی پی سے زیادہ مقبول ہیں۔
’بظاہر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ طاقتور حلقے پرویز خٹک کے ساتھ ہیں اور ان کی حکومت بننے جا رہی ہے۔ لیکن نتائج مختلف ہو سکتے ہیں‘۔
عارف حیات کے مطابق الیکشن کے بعد مولانا فضل الرحمان کا کردار اہم ہوگا، کیونکہ ان کی جماعت سیٹیں نکالنے کی پوزیشن میں لگ رہی ہے، اور مولانا فضل الرحمان اس جماعت کا ساتھ دیں گے جو مرکز میں حکومت بنانے کے قابل ہوگا تاکہ صوبے اور مرکز دونوں میں وزارتیں مل جائیں۔
عارف حیات نے مزید بتایا کہ آزاد اراکین حکومت نہیں بنا سکتے، ان کا فائدہ سیاسی جماعتوں ہی کو ہوگا۔ بلے کا نشان نہ ملنے کے بعد تحریک انصاف کا ووٹ بینک بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے، جس کا فائدہ بھی دیگر سیاسی جماعتوں ہی کو ہوگا۔