پاکستان مسلم لیگ ن (پی ایم ایل این) کے قائد و سابق وزیراعظم نواز شریف نے وطن واپسی کے بعد اپنی انتخابی مہم کا پہلا جلسہ حافظ آباد میں کیا تھا اور آج انہوں نے مانسہرہ میں ایک بڑا جلسہ کیا۔ مسلم لیگ ن اس جلسے کو کامیاب ترین قرار دے رہی ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں کارکنوں نے شرکت کی۔
نواز شریف کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ ان کو ہزارہ کے لوگوں سے دور کیا گیا اور دوبارہ آکر انہیں خوشی ہوئی۔
آخر نواز شریف نے خیبر پختونخوا کے دورے کا آغاز ہزارہ ہی سے کیوں کیا؟
مزید پڑھیں
نواز شریف نے لندن سے واپسی کے بعد پہلی بار خیبر پختونخوا کا دورہ کیا۔ پشاور اور دیگر اضلاع کے بجائے انہوں نے ہزارہ کے ضلع مانسہرہ کا انتخاب کیا جہاں سے وہ الیکشن بھی لڑ رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ن لیگ کا ہزارہ سے گہرا تعلق ہے اور ن لیگ کی جڑیں دیگر ڈویژنز کی نسبت ہزارہ میں گہری ہیں۔
ہزارہ میں مسلم لیگ مقبول جماعت ہے، عارف حیات
سینیئر تجزیہ کار عارف حیات جو سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق انتخابات میں ہزارہ ڈویژن کے نتائج ہمیشہ سے پورے صوبے سے الگ ہی آئے ہیں۔ ’یہاں کے لوگوں نے مشکل وقت میں بھی ن لیگ کا ساتھ دیا، نوازشریف اس سے قبل بھی ایبٹ آباد سے الیکشن میں حصہ لے چکے ہیں‘۔
عارف حیات نے بتایا کہ ہزارہ میں ن لیگ ہی نہیں مسلم لیگ مقبول ہے۔ وہاں اکثر مسلم لیگ کے دیگر دھڑوں کو بھی کامیابی ملی ہے۔ ان کے مطابق دیکھا جائے تو ہزارہ کے لوگ مسلم لیگ سے لگاؤ رکھتے ہیں۔
سینیئر تجزیہ کار نے بتایا کہ مشکل حالات میں بھی ہزارہ سے ن لیگ کو کامیابی ملی ہے۔ 2013 اور 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کی ہوا چل رہی تھی اور خیبرپختونخوا میں کامیابی بھی ملی مگر ہزارہ ڈویژن کے نتائج مسلم لیگ ن کے حق میں رہے۔ ’2013 میں این اے 15 سے کیپٹن صفدر ایم این اے منتخب ہوئے جبکہ اسی سیٹ پر 2018 میں ن لیگ کے ساجد اعوان کامیاب ہوئے تھے‘۔
ان کا خیال ہے کہ نواز شریف کو بھی حالات کا اندازہ ہے کہ ہزارہ پارٹی کا گڑھ ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ یہ بھی ان کے ہاتھ سے نکل جائے۔
’ماضی میں ہزارہ کے نتائج باقی صوبے سے مختلف ہی آئے‘
عارف حیات کا خیال ہے کہ ماضی میں ہزارہ کے نتائج باقی صوبے سے مخلتف ہی آئے ہیں۔ 2002 میں ہر طرف مذہبی جماعتوں کو کامیابی ملی لیکن ہزارہ میں اکثریت مسلم لیگ کی تھی۔ 2013 میں پیپلزپارٹی اور اے این پی کو اکثریت ملی لیکن ہزارہ میں پھر بھی مسلم لیگ ہی کامیاب رہی۔ ’نواز شریف کو پتا ہے کہ پشاور، مردان یا دیگر اضلاع میں پارٹی کچھ زیادہ مضبوط نہیں ہے۔ اس لیے وہ اس علاقے کو ترجیح دیں گے جہاں ان کا ووٹ بینک ہے‘۔
سینیئر صحافی فدا عدیل کے مطابق ن لیگ ہزارہ کی مقبول جماعت ہے اور نواز شریف نے ہزارہ کے لیے ترقیاتی کام بھی کیے ہیں۔ ہزارہ موٹروے اس کی ایک مثال ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نواز شریف کی نظریں وفاق پر ہیں اس لیے ہزارہ کو فوکس کر رہے ہیں تاکہ ووٹرز کو سرگرم کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ کامیابی ہو۔ ’نواز شریف کو ہزارہ میں پارٹی اختلافات کا بھی اندازہ ہے۔ ان کی کوشش تھی کہ پرانے ساتھی واپس آ جائیں تاکہ پارٹی مزید مضبوط ہو‘۔
پہلہ جلسہ کیسا رہا؟
عارف حیات کے مطابق نواز شریف نے کافی عرصے بعد ہزارہ کا دورہ کیا اور کامیاب پاور شو کیا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہزارہ ن لیگ کا گڑھ ہے۔ ’جلسے میں عوام کی کافی بڑی تعداد موجود تھی اور لوگوں نے نواز شریف کا خطاب سنا‘۔
انہوں نے بتایا کہ نواز شریف این اے 15 سے الیکشن بھی لڑ رہے ہیں جو ن لیگ کے مطابق ان کا گڑھ ہےاور قائد ن لیگ کو کامیابی ملے گی۔
ہزارہ میں ن لیگ کے رہنما ناراض، الیکشن پر کوئی اثر پڑے گا؟
عارف حیات کے مطابق مشکل وقت میں ن لیگ کو ہزارہ میں سرگرم رکھنے میں پارٹی رہنماؤں کا اہم کردار ہے۔ ان کے مطابق پیر صابر شاہ اور سردار مہتاب نے ہزارہ میں پارٹی کی جڑیں مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ اب سردار مہتاب سمیت اہم رہنما نواز شریف سے الگ ہوگئے ہیں جس کا ان کے حلقوں میں پارٹی پر ضرور اثر پڑے گا۔ بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ کو ہزارہ میں کیپٹن صفدر نے بھی مضبوط کیا ہے۔ لوگوں کے غم اور خوشی میں پہنچ جاتے ہیں۔ عوام کے درمیان ہوتے ہیں جس کی وجہ سے این اے 15 سخت وقت میں بھی ن لیگ کے ساتھ ہی رہا۔ انہوں نے بتایا کہ جن لوگوں نے سخت وقت میں ن لیگ کا ساتھ دیا وہ نواز شریف کے بھی قریب ہو گئے ہیں اور انہیں یقین ہو گیا ہے کہ وہاں سے ان کی کامیابی یقینی ہے۔