190 ملین پاؤنڈز اور توشہ خانہ کیسز میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی جیل ٹرائل کیخلاف درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
نیب کیسز میں جیل ٹرائل کیخلاف بانی پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ میڈیا کو مقدمات کی کوریج کی رسائی کے سوشل میڈیا اسکرین شاٹس موجود ہیں، عدالتی استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ماضی میں سیشن کورٹس جہاں سماعت کرتی تھی اس کا نوٹیفکیشن جاری ہوتا تھا۔
نیب کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ لاہور میں ایڈیشنل سیشن ججز ماڈل کورٹس میں بیٹھتے ہیں، 13 نومبر کو عمران خان القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار ہوئے، ہم نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ خصوصی عدالت سے اجازت لے کر ان کی گرفتاری کا اندراج کیا۔
عمران خان کے وکیل شعیب شاہین نے موقف اپنایا کہ نیب ریفرنس دائر ہونے سے قبل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا، جیل ٹرائل کانوٹیفکیشن 14 نومبر کو جبکہ نیب ریفرنس 4 دسمبر کو دائر ہوا، دوسرا نوٹیفکیشن 28 نومبر کو جاری ہوا جبکہ ریفرنس 20 دسمبر کو دائر ہوا، نوٹیفیکیشن اور سمری کے عمل کو دیکھیں تو غیرضروری جلد بازی واضح ہے۔
مزید پڑھیں
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ نیب کی درخواست پر ایک ہی دن میں سمری تیار ہوئی اور کابینہ سے منظور بھی ہوگئی، ملک میں باقی سارے امور بھی اتنی سرعت کے ساتھ ہوجاتے تو کئی مسائل حل ہو جائیں، اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ بھی بالکل یہی بات کہنے لگے تھے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اڈیالہ جیل میں عمران خان کا نیب مقدمات میں ٹرائل اوپن کورٹ میں ہو رہا ہے، جس پر شعیب شاہین بولے؛ ٹرائل اتنا اوپن ہے کہ ہمارے ایک ساتھی وکیل کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی، سائفر کیس میں متعلقہ جج نے حکومت کو جیل ٹرائل کے لیے خط بھی لکھا تھا، جس کے باوجود ہائیکورٹ نے ٹرائل کالعدم قرار دیا کیونکہ عدالتی حکم نامہ موجود نہیں تھا۔
عمران خان کے وکیل شعیب شاہین کا موقف تھا کہ متعلقہ مقدمات میں تو متعلقہ جج کی جانب سے کوئی خط بھی نہیں لکھا گیا ہے، جس پر نیب کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ کا حالیہ فیصلہ مختلف گراؤنڈز پر دیا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ اگر آج عدالت کہے کہ باقی ٹرائل جوڈیشل کمپلیکس میں کرنا ہے تو کیا عدالت کو اختیار ہے، جس پر امجد پرویز بولے؛ بالکل عدالت کو اختیار ہے وہ کسی بھی اسٹیج پر یہ فیصلہ کرسکتی ہے، انہوں نے اپنے دلائل کی سپورٹ میں 1931 بمبئی کورٹ کے فیصلے کو بطور نظیر پیش کیا۔
امجد پرویز کے مطابق مذکورہ فیصلے کی 3 سطروں میں موجودہ کیس کے تمام سوالات کا جواب موجود ہے، جب ایک مرتبہ عدالت کی جگہ کے تعین کے لیے نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا تو پھر کسی دوسرے آرڈر کی ضرورت نہیں رہتی، شعیب شاہین کا موقف تھا کہ جو بھی طریقہ کار ہو اسے ٹرائل کورٹ نے ہی طے کرنا ہے۔
شعیب شاہین نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے طے کرنا ہے ٹرائل جیل میں ہو گا یا نہیں، ٹرائل کورٹ کی جگہ کا انتخاب بھی ٹرائل کورٹ طے کرے گی، ہم یہ نہیں کہتے جیل میں ٹرائل نہیں ہو سکتا لیکن پراسس ٹرائل کورٹ نے پورا کرنا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ نے نیب کیسز میں جیل ٹرائل کیخلاف سابق وزیر اعظم عمران خان کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔