ملک بھر میں عام انتخابات کے حوالے سے سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے اور مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی انتخابی مہم آخری مرحل میں داخل ہو چکی ہے۔
ایسے میں امیدواران اپنے متعلقہ حلقوں میں بینر آویزاں کر کےووٹرز کو اپنی جانب مائل کر رہے ہیں تاہم جہاں کمپیوٹر ڈیزائننگ اور پینا فلیکس پرنٹنگ سے منسلک کام کرنے والے افراد کی چاندی ہو گئی تو وہیں خطاطی اور مصوری کے شعبے سے وابستہ افراد بس دکانوں کے باہر گاہکوں کی آمد کے منتظر ہی ہیں۔
بلوچستان کے صوبائی دارلحکومت کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے خطاطی اور مصوری کے فن سے گزشتہ 3 دہائیوں سے وابستہ نیازمحمد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ماضی میں عام انتخابات کی آمد سے قبل ان کی دکان پر امیدواروں کا ایک ہجوم ہر وقت رہتا تھا اور کام اس قدر زیادہ ہوتا تھا کہ سانس لینے کا بھی وقت نہیں ملتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جیسے ہی ٹیکنالوجی نے جدت اختیار کی ویسے ویسے فن اور فنکاروں کی قدر میں کمی آتی گئی۔
نیاز محمد نے کہا کہ اب دور بدل گیا ہے امیدوار کم قیمت میں بینر کا ڈیزائین بنوا کر اسے جلد پرنٹ کروا لیتے ہیں لیکن پرنٹنگ کی وجہ سے ہمارے کام ماند پڑتا جا رہا ہے ایسے میں اگر سورت یہی رہی تو خطاط اور مصوروں کے گھروں میں افلاس رقص کرے گا ایسے میں حکومت کو ایسے ہنرمندوں کے لیے کوئی مثبت پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں حالات مزید سنگین نہ ہو جائیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں وزرا اعلیٰ، وزیر اور گورنر بلوچستان ان سے کام کرواتے رہے ہیں لیکن اب ان کی دکان پر کوئی بھی نہیں آتا۔
اکیسویں صدی میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ ٹیکنالوجی میں جدت آتی جا رہی جس کی وجہ سے روایتی ہنر مندوں اور فنکاروں کی ضرورت کم ہوتی جارہی ہے۔