جب عمران خان کی حکومت کا عروج تھا، تب ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے کی بھی بڑی چکاچوند تھی۔ جنرل فیض حمید پی ٹی آئی سپورٹرز کے ہیرو ہوا کرتے تھے۔ ان کی ہم نے کابل میں چائے پیتے تصویر پوری دنیا میں ڈسکس ہوتے دیکھی۔ اب دوسری چیز جو ڈسکس ہورہی ہے وہ جناح کنونشن میں آرمی چیف اور لاہور میں ڈی جی آئی ایس آئی کی طلباء سے نشست ہے۔
چھ اکتوبر 2021کو ایک اہم تعیناتی ہوئی،ایسی تعیناتی پاکستان میں ہمیشہ اہمیت کی حامل رہی ہے۔ چونکہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کو پاکستان میں آرمی چیف کے بعد شاید دوسری اہم ترین تعیناتی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس بار جو تعیناتی ہوئی وہ ضرورت سے زیادہ ڈسکس ہوئی کیونکہ اس بار جنرل ندیم انجم بطور ڈی جی آئی ایس آئی تعینات ہوئے اور اس تعیناتی کے نوٹی فکیشن کو روک کر اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے ایک نئی بحث چھیڑ دی تھی، شاید اسی تعیناتی پر عمران خان اور جنرل باجوہ میں اختلافات کھل کر دنیا کے سامنے آگئے اور سیم پیج کے پھٹنے کی خبر بریک ہوئی۔
خیر جتنی یہ تعیناتی اہم تھی اتنا ہی اس عہدے پر آنے والے شخص نے خود کو لو پروفائل رکھا۔ جہاں سے خبریں نکلتی تھیں انہیں بھی بتا دیا گیا کہ تصاویر اور خبروں میں جنرل ندیم انجم کا نام شامل نہیں ہوگا۔ خبررساں اداروں کو بھی بتا دیا گیا کہ کسی بھی میٹنگ کی ایسی تصویر آن ائیر نہیں ہوگی جس میں ڈی جی آئی ایس آئی نظر آرہے ہوں۔
یہی رویہ ہم نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی جانب سےبھی دیکھا۔ انہوں نے ایک سال تک خود کو انتہائی لو پروفائل رکھا۔ پبلک فورم سے دور رہے، اپنے پیش رو کی روایت کے برخلاف صحافیو ں سے بھی ملاقاتوں سے اجتناب کیا، حتیٰ کہ جو ڈی جی آئی ایس پی آر تعینات ہوئے ، وہ بھی اسی پالیسی پر کارفرماں نظر آئے۔
سوال یہ ہے ،آخر ایسا کیا ہوا کہ ملٹری قیادت کو خود میدان میں آنا پڑگیا ؟ ایک سال تک جس پالیسی پر عمل پیرا تھے اس روایت کو قائم کیوں نہ رکھ پائے ؟ اگر طائرانہ نظر دہرائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نوبت بھی پاکستان کے موجودہ سیاسی اور عوامی حالات کے باعث آئی اور اس کی ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے جن کی بدولت ادارے نے خود کو ان چیزوں سے دور رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
جنرل سید عاصم منیر کی تعیناتی ہوئی تو انہیں سب سے زیادہ مزاحمت تحریک انصاف کی جانب سے تھی۔ عمران خان کا معاملہ گزشتہ ملٹری چیف سے تھا وہیں تک رہتا تو شاید آج یہ حالات بھی نہ ہوتے۔ جنرل عاصم منیر کے ساتھ بھی عمران خان نے وہی پالیسی جاری رکھی، وہی مطالبات جاری رکھے، بیک ڈور کوششیں بھی کرتے رہے اور پبلک فورمز پر ان پر پریشر بڑھانے کا بھی سلسلہ جاری رکھا۔ ایسا بیانیہ بن گیا ، اپنے سپورٹرز میں اتنی نفرت کی ہوا بھر دی گئی کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار نو مئی جیسا سانحہ رونما ہوگیا۔ شہداء تک کی یادگاروں کے ساتھ نفرت کا اظہار کیا گیا، ان واقعات سے نفرت کے بیانیے کی شدت کا اندازہ بخوبی ہوسکتا ہے۔
اب جب ایک ایسا ادارہ جس کا ، کام ملک کا دفاع ہے۔ جس نے عوام کی طاقت او رعوام کی سپورٹ سے ہی دشمن سے لڑنا ہوتا ہے وہ کیسے یہ صورتحال برداشت کرسکتا ہے۔بلوچستان میں فوجی ہیلی کاپٹر کریش کرجاتا ہے، جنرل سرفراز سمیت فوجی افسران شہید ہوجاتے ہیں، پہلی بار ایسا دیکھا کہ اس حادثے پر افسوس کا اظہار کرنے کی بجائے ایسی گفتگو یا سوالات کیے گئے جن کا کوئی سر پیر نہیں بنتا تھا۔
ایسی گفتگو پہلی بار سامنے نہیں آئی بلکہ مزید بھی کئی مواقع پر ایسا ہوا ہے۔یعنی ، ان میں جو بیانیہ ہے وہ بہت پرتشدد ہے۔ اس کو ان سے بات کرکے ہی نرم کیا جاسکتا ہے۔ شاید، یہی وہ محرکات تھے جنہوں نے عسکری قیادت کو خود نوجوانوں کے ساتھ نشستیں رکھنے پر مجبور کیا۔
وہ بات آپ اور میں کرتے ہیں تو بوٹ پالشیے کہلاتے ہیں اگر فوجی قیادت کو خود میدان میں آنا پڑرہا ہے تو کرنے دیں، نوجوانوں سے بات کرکے اگر وہ فطری طور پر ہیرو بنتے تو بننے دیں، کم از کم پہلے والوں کی طرح مصنوعی طور پر تو ہیرو نہیں بنیں گے، البتہ اس میں بھی شرط یہ ہے کہ نوجوان قائل ہوں گے تو ہی ہیرو بنیں گے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جرنیل بیانیہ نہیں بناسکتے۔ موجودہ حالات میں عسکری قیادت بیانیہ بنانے میدان میں نہیں اتری۔ نوجوانوں سے گفتگو کرکے بیانیہ بنانہیں رہے بلکہ وہ نفرت کے بیانیے کو کاونٹر کرنے میدان میں اترے ہیں اور ففتھ جنریشن پر پرانے روایتی طریقے بھی آزمائے نہیں جاسکیں گے، انہیں غیر روایتی انداز میں ہی قائل کرنا پڑے گا۔ کیونکہ یہ چند جرنیلوں کا نہیں بارڈر پر کھڑے سپاہی کے مورال کا مسئلہ ہے۔