احتساب عدالت نے کپتان اور بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ ریفرنس میں 14، 14 سال قید بامشقت کی سزا سنادی ہے۔
اس سے صرف ایک دن پہلے سائفر کیس میں بھی کپتان اور شاہ محمود قریشی کو 10،10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔ دونوں ہی کیسز میں سزا سنانے سے پہلے عدالتی کارروائی کو آخر میں تیز رفتاری سے نپٹا دیا گیا۔ اب قانونی ماہرین یہ بھی کہتے پائے جا رہے ہیں کہ یہ سزائیں اعلیٰ عدالتوں میں برقرار نہیں رہ سکیں گی۔
کپتان اور اس کے وکلا کی حکمتِ عملی کیسز کو زیادہ سے زیادہ لمبا کھینچنے کی تھی جو بظاہر ناکام رہی ہے۔ عدالتوں نے سزا سنا دی ہے، البتہ اب اس ٹرائل پر سوال ضرور کھڑے ہوجائیں گے۔
صورتحال کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ان کیسز کو اگر لمبا بھی کھینچ لیا جاتا تب بھی ان میں سزائیں یقینی تھیں۔ الیکشن سے پہلے سزا ہوجانے سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ اس سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا ووٹر مایوس ہوگیا لیکن کپتان کا سپوٹر اس سے مایوس نہیں ہوتا۔ دونوں کا تعلق پکا ہے، سپوٹر اپنے لیڈر کے ساتھ گول چکر کاٹتا رہتا ہے اور جو کہے وہ کرنے کو تیار رہتا ہے۔ ووٹر کا مایوس ہونا اتنا کام نہیں آنا۔ الیکٹ ایبل کا بھاگ جانا اور پارٹی کا نشان واپس لے لینے سے نقصان زیادہ ہوگا۔ پارٹی مشینری کے معطل ہوجانے سے بھی نقصان ہوگا۔
لگ یہ رہا ہے کہ نوازشریف نہیں چاہتے کہ جب وہ حکومت سنبھالیں تب کپتان کو سزائیں سنائی جائیں۔ وہ اس معاملے کو پنڈی جانے اور کپتان جانے تک ہی محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ بشریٰ بی بی کو سزا ہونا غیر روایتی ہے اور کوئی سیاستدان بھی یہ کام اپنے ذمے نہیں لے گا۔ ایک طرح سے جو کپتان کو لائے تھے انہوں نے خود ہی کپتان کو باہر کا راستہ بھی دکھا دیا ہے۔ سیاستدان اس سے لاتعلق ہی رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سائفر کیس میں تیزی کی وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ کپتان کے ایک وکیل نے جج کے حوالے سے نازیبا ریمارکس دیے تھے جس کے بعد عدالت نے کیس کی کارروائی تیزی سے مکمل کی اور کپتان کا حق جرح بھی ختم کردیا۔ قانونی ماہرین جو بھی کہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ کیس پر سوال اٹھ گئے ہیں اور یہ سزا اعلیٰ عدالت میں یہ اڑ جائے گی۔ مگر اس کیس کا ایک اینگل اور بھی ہے۔
کپتان نے سائفر کیس میں جو 342 کے تحت اپنا بیان دیا ہے اس میں ایک بار پھر ڈونلڈ لو، سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کو اپنی حکومت گرانے اور سازش کا ذمہ دار قرار دے دیا ہے۔ اس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے سائفر کے غائب ہونے کی ذمہ داری بھی ان فوجی افسران پر ڈال دی ہے جو وزیرِاعظم کے ساتھ ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔ اپنی قانونی لڑائی سیاسی انداز میں لڑنے کا کپتان کو نقصان ہوا ہے۔
سائفر کو دوبارہ سازش قرار دینے، حساس معاملات کو چھیڑنے جیسے معاملات نے آئندہ کے لیے کپتان کی مشکلات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ایک ایٹمی ملک کا سابق وزیرِاعظم اپنے ہی سیکیورٹی ادارے کے سربراہ اور اہم سفارتکاروں پر الزام لگا رہا ہے۔ کپتان نے اپنے لیے مزید کھڈے کھود لیے ہیں۔
ایک طرف کپتان نے اداروں کے ساتھ متھا لگا رکھا ہے تو دوسری طرف سیاستدان ایک طرح سے اس لڑائی سے لاتعلق ہیں۔ لگ یہی رہا ہے کہ نوازشریف کو فری ہینڈ دے دیا گیا ہے۔ وہ چاہتے بھی یہی تھے کہ اس لڑائی سے وہ باہر رہیں۔ اس کا فائدہ ان کو ہو، ان کا تاثر ایک مدبر کا بنا رہے۔ ان پر الزام بھی نہ آئے کہ اپنے سیاسی مخالف کے خلاف کارروائی ان کے دور میں ہوئی۔
یہ سب کچھ تو ہوگیا، مگر اب؟ الیکشن کے بعد جو حکومت بنے گی اس کو کپتان کی جانب سے کوئی فوری خطرہ درپیش نہیں ہوگا۔ اتنا وقت اس حکومت کو ضرور مل جائے گا کہ وہ تیزی سے معیشت کے حوالے سے اقدامات کرے۔ وہ معصوم جن کا خیال ہے کہ کپتان 8 فروری کے الیکشن میں 2 تباہی (تباہی ہی لکھا ہے) اکثریت آزاد امیدواروں کے سر پر لے لے گا ایسے معصوموں سے بحث کرنے اور ان کے سامنے جانے سے پرہیز ہی بہتر ہے۔
پی ٹی ائی کا جو حشر ہوا سو ہوا، جس طرح میدان نوازشریف جیسے بے رحم سیاسی کھلاڑی کو ہموار کرکے فراہم کردیا گیا ہے، ان کو آنے سے اب کوئی نہیں روک سکتا، وہ خود بھی نہیں۔ الیکشن کی جتنی آتما رولی جاسکتی تھی وہ کپتان اور پی ٹی ائی نے رول دی ہے۔ لیکن اس سے بھی کوئی فرق پڑتا ہے بھلا۔