چیف جسٹس آف پاکستان سپریم کورٹ کی قیادت میں کام کرنے والے لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان نے ایک بار پھر ورلڈ جسٹس پراجیکٹ(WJP) کو خط لکھ کر شکوہ کیا تھا کہ ’پاکستان کی عدلیہ کی عالمی رینکنگ رپورٹ مفروضوں پر مبنی ہے اور رول آف لاء انڈیکس 2021 میں کئی دیگر خامیاں بھی ہیں۔
اور اس شکوے کا جواب ایک بار پھر یہی آیا کہ ہمارا طریقہ کار بالکل درست ہے اور 100 سے زیادہ ممالک کے ماہرین نے رول آف لاء اور قانون کی حکمرانی کی جو تعریف بیان کی ہے اس تعریف کے مطابق دنیا کے 139 ممالک میں سے پاکستان کا نظامِ انصاف 130 ویں نمبر پر ہی آتا ہے اور ہمارے طریقہ کار میں کوئی سقم نہیں ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چیف جسٹس صاحب عالمی رینکنگ میں پاکستان کے نظامِ انصاف کی ہر سال گرتی ہوئی رینکنگ پر کوئی سوموٹو لیتے اور کوشش کرتے کہ ان کی سربراہی کے اس دوارنیے میں نظامِ انصاف میں بہتری آتی تاکہ ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کی آئندہ ہونے والی رینکنگ میں پاکستان کی پوزیشن بہتر ہوتی لیکن چیف صاحب نے سوموٹو لیا بھی تو ایک اور سیاسی کیس میں اور پہلی ہی سماعت میں ریٹنگ لیتا ریمارکس جاری کیا کہ “عوام تو ہمارے دروازے پر دستک دیتی ہی رہتی ہے اس دفعہ آئین پاکستان نے ہمارے دروازے پر دستک دی ہے” یہ ریمارکس آتے ہی میڈیا اور سوشل میڈیا پر ریٹنگ کی دوڑ میں سب سے آگے آگیا اور یہ نہیں کہ چیف جسٹس کے اس کھڑکی توڑ ریمارکس کی بہت واہ واہ کی گئی کہ چیف صاحب کے دل میں آئین کے لیے کتنا درد ہے؟ بلکہ سبھی کو یاد آ گیا کہ 1954 کے مولوی تمیز الدین کیس میں جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت ہو یا 1958 کے مارشل لاء کو جواز فراہم کرنا ہو؛ ضیاء مارشل لاء کی طوالت کو جائز قرار دینا ہو یا مشرف کی آمریت کی قبولیت ہو ہماری عدالتیں ہمیشہ ہی آئین کی دستک کو نظر انداز کرتی ہر طاقتور کے سامنے سر سجود ہی نظر آئیں تو ایسے میں ورلڈ جسٹس پراجیکٹ سے گلہ شکوہ بےسود ہی نظر آتا ہے۔
اور جو جوڈیشل ایکٹیو ازم گزشتہ پانچ چھ سال میں نظر آیا اسے دیکھتے ہوئے تو ایک عام آدمی بھی یہ سوال کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر یہ جو 8 نو ممالک پاکستان سے نیچے ہیں وہ کیوں اور کیسے نیچے آ گئے؟
سوال تو عوام کی ‘دستک’ پر بھی اٹھتا ہے کہ ملک بھر میں 22لاکھ سے زیادہ کیسز زیرِ التوا ہیں اور سپریم کورٹ میں تقریباً 60 ہزار کیسز شنوائی کے منتظر ہیں لیکن چیف جسٹس صاحب سیاسی کیسز میں آئین کی دستک کی کہانی سناتے نظر آتے ہیں تو ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کیا کرے؟
عدلیہ کی نالائقی، نااہلی، آئین کی منی مانی تشریحات، خواص اور عوام کے لیے مختلف اصول و قاعدوں کے اطلاق اور ہم خیال بینچز کی تشکیل کے ساتھ ساتھ کسی بھی بینچ میں سینئرز کو نظر انداز کرنے کی مشق، دوسرے اداروں، محکموں اور حکومتی و انتظامی ذمہ داریوں میں غیر ضروری مداخلت، ‘آئین وہ ہو گا جو ہم کہیں گے’ یا ‘آئین کیا کہتا ہے اس کا دارومدار تشریح پر ہے’ جیسے اعلانات کرنے کے بعد آئین کی ایسی تشریح جسے عقل کا کوئی پیمانہ درست ماننے کو تیار نہ ہو جیسے عوامل نے آج ہر پاکستانی کا اعتماد نظامِ انصاف پر متزلزل کر دیا ہے بلکہ شاید اعتماد رہا ہی نہیں۔
جن عدالتوں میں عوام سال ہا سال اپنے کیسز کے فیصلوں کے لیے رُلتے موت کی دہلیز تک جا پہنچتے ہیں وہیں چند سیاسی کیسز کی سماعتوں کے دوران ایسا ماحول بن جاتا ہے جیسے کسی فلم کی شوٹنگ چل رہی ہو اور جج صاحبان کے ریمارکس کسی پنجابی فلم کے ہیرو اور ولن کی بھڑکوں کی طرح میڈیا اور سوشل میڈیا پر گونجتے رہتے ہیں۔ خیر جب کمرہ عدالت میں آئین کے حوالوں کی بجائے فلموں کے ڈائیلاگ سنائے جائیں گے اور ناولوں کے ریفرنس دئے جائیں گے اور فیصلے آئین کو مدنظر رکھنے کی بجائے ضمیر کے مطابق ہوں گے تو پھر ماحول بھی کسی فلم کے سیٹ جیسا ہی ہو گا۔
تو ایسے میں مجھ جیسے عرض بس یہی کرتے ہیں کہ چیف جسٹس صاحب! آپ خود اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں ورلڈ جسٹس پراجیکٹ بیچارہ کیا کرے؟