انتخابات میں صرف ایک دن باقی ہے اور تمام سیاسی جماعتیں انتخابی مہم پر جی جان لگا رہی ہیں، تاکہ انتخابات میں کامیابی حاصل کی جا سکے۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی انتخابی مہم کے دوران منفرد انداز دیکھنے کو ملے ہیں۔ جیسے کے پی 82 کے امیدوار تیمور زیب نے بچوں میں جہاز بانٹ کر اپنے انتخابی نشان کو عوام تک پہنچانے کا راستہ چنا، اسی طرح امیدوار صوبائی اسمبلی پی کے 83 جاوید نسیم نے اپنے انتخابی نشان انار کو لوگوں میں مقبول کرنے کے لیے عوام میں انار تقسیم کیے۔
مزید پڑھیں
نواز شریف کی اپنی انتخابی مہم کے دوران عوام کو کالز کے ذریعے ووٹ ڈالنے درخواست کوئی نیا انداز نہیں بلکہ یہ سلسلہ 2018 کی انتخابی مہم کے دوران سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے شروع کیا گیا تھا۔ جس کے بعد الیکشن 2024 کی انتخابی مہم کے دوران ملک بھر میں لوگوں کو جماعت اسلامی، پاکستان تحریک انصاف، اور ملسم لیگ نون کی جانب سے بھی عوام کو کالز موصول ہو رہی ہیں۔
لوگوں کو اعتراضات کیا ہیں؟
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نون کے لیڈر میاں محمد نواز شریف کی عوام کے ذاتی موبائل فون پر کال کے حوالے سے چند لوگوں کو اعتراضات بھی ہیں۔ اور سوشل میڈیا پر کئی لوگ اعتراضات بھی اٹھا رہے ہیں۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا صارف فواد حسین کہتے ہیں کہ ’مجھے اس نمبر سے کال آئی، تحریک انصاف کے لیے کسی خاتون نے ووٹ کی درخواست کی، میرا صرف اتنا سوال ہے کہ میرا نمبر کیسے کسی سیاسی جماعت کے پاس آیا۔ جس علاقے میں میرا ووٹ درج ہے مجھے وہاں کوئی نہیں جانتا اور نہ میں وہاں رہائش پذیر ہوں، لہٰذا یہ بھی ممکن نہیں کہ نمبر کسی جاننے والے سے لیا ہوگا۔‘
سوشل میڈیا صارف ایکس پر لکھتے ہیں کہ ’لوگوں کے موبائیل نمبرز بنک اکاؤنٹس اور نادرا ریکارڈ وغیرہ ایسی چیزیں بڑی ذاتی نوعیت کی ہوتی ہیں اور بغیر آپ کی اجازت کوئی بھی یہ ریکارڈ کسی سیاسی جماعت، غیر متعلقہ شخص یا ادارے کو شیئر نہیں کر سکتا۔
تمام لوگ جنہیں میاں صاحب کے فونز آرہے ہیں انہیں چاہیے اپنی موبائیل کمپنیوں سے رابطہ کریں، نادرا یا اپنے بینک سے پوچھیں کہ آپ کا ذاتی ڈیٹا کس نے اور کیوں ایک سیاسی پارٹی کو دیا ہے۔ کیا ایسی چیزیں بغیر اجازت شیئر کرنا قانون نہیں ہے۔ میرے خیال سے تمام متعلقہ لوگوں پر کیس بن سکتا ہے۔‘
کیا ان کالز پر قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے؟
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سماجی کارکن ایڈووکیٹ لوک ویکٹر کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن سے اپنے حلقوں کے تمام ووٹرز کے موبائیل فون نمبرز کی درخواست کرتی ہیں۔ تاکہ وہ اپنی انتخابی مہم موبائیل کال کے ذریعے بھی چلا سکیں۔
الیکشن کمیشن تمام ووٹرز کے نمبرز فراہم کرتے ہوئے سیاسی جماعت سے حلف سمیت حلف نامے پر دستخط بھی کرواتا ہے کہ پارٹی کے نمائندوں کے علاوہ یہ ڈیٹا کسی تھرڈ پارٹی تک نہیں پہنچنا چاہیے۔ اگر کسی فرد کو لگے کہ اس کے ڈیٹا کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے تو وہ الیکشن کمیشن سے رجوع کرسکتا ہے۔ اور ڈیٹا کے غلط استعمال کی وجہ سے اس نمائندے کو نااہل کیا جا سکتا ہے۔