عام انتخابات کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد ملک بھر میں سیاسی جماعتوں اور آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے امیدواروں کے درمیان حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت
بات ہو اگر رقبے کے اعتبار سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کی تو اس وقت صوبے میں بھی سیاسی پنڈتوں نے حکومت سازی کے لیے سر جوڑ لیے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کی 51 نشستوں پر غیر حتمی غیر سرکاری نتائج آنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی11 نشستوں کے ساتھ صوبے کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے جبکہ مرکز کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام ف 10، 10 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
بلوچستان میں چوتھے نمبر پر آزاد امیدوار 6 نشستوں کے ساتھ ہیں، جبکہ 5 سیٹوں کے ساتھ بلوچستان عوامی پارٹی ایک بار پھر ایوان تک پہنچنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس کے علاوہ نیشنل پارٹی 3، عوام نیشنل پارٹی 2، جماعت اسلامی، حق دو تحریک اور بی این پی مینگل اور بی این پی عوامی ایک ایک نشست لینے میں کامیاب رہیں ہیں۔
سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیاں
غیر حتمی غیر سرکاری نتائج سامنے آنے کے بعد سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیاں اور سوالات جنم لینے لگے ہیں کہ صوبے میں آئندہ حکومت اور وزیر اعلیٰ کس جماعت کا ہوگا۔
ذرائع کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی نے سرفراز بگٹی اور نواب ثنااللہ زہری کے ناموں پر اتفاق کیا ہے۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے جام کمال، جمعیت علمائے اسلام ف کی جانب سے نواب اسلم رئیسانی جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی سے صادق سنجرانی کے نام اب تک سامنے آچکے ہیں۔
اسلام آباد کے لیے اڑان
ذرائع کا بتانا ہے کہ سرفراز بگٹی، ثنااللہ زہری اور صادق سنجرانی اسلام آباد کے لیے اڑان بھر چکے ہیں جبکہ دیگر خواہش مند بھی وزارت اعلیٰ کی کرسی کے لیے جوڑ توڑ کر رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق صوبے میں 4 جماعوں پر مشتمل مخلوط حکومت بنے گی۔ جس میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام ف کا اہم کردار ہوگا جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی بھی اسی حکومت کا حصہ ہو سکتی ہے۔
بلوچستان میں حکومت سازی وفاق میں حکومت پر منحصر ہوگی
Related Posts
سیاسی مبصرین کا موقف ہے کہ بلوچستان میں حکومت سازی وفاق میں حکومت پر منحصر ہوگی۔ اگر وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی حکومت بنا لیتی ہے تو مسلم لیگ ن صوبے میں حکومت بنائے گی جس صورت میں جام کمال وزیر اعلیٰ کے منصب پر ایک بار پھر براجمان ہونگے، لیکن اگر وفاق میں مسلم لیگ ن وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگی تو ایسی صورت میں پیپلز پارٹی کا وزیر اعلیٰ ہو سکتا ہے۔
صادق سنجرانی بھی وزیر اعلیٰ بن سکتے ہیں
سیاسی ماہرین کے مطابق اس وقت سیاسی کھیل کی اصل رسی 6 آزاد امیدواروں کے ہاتھ میں ہے اگر یہ آزاد امیدوار باپ کا حصہ ہوجائیں تو صادق سنجرانی کے لیے قائد ایوان کے راہیں ہموار ہو جائے گی۔
اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ 6 میں سے 4 یا 5 آزاد امیدوار بی اے پی کا حصہ ہو سکتے ہیں کیونکہ کامیاب ہونے والے آزاد امیدوراں میں 3 کا تعلق باپ سے رہا ہے تو ایسے میں صادق سنجرانی بھی وزیر اعلیٰ بن سکتے ہیں تاہم ان تمام تر سوالوں کا جواب وقت ہی دے گا۔